کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 431
بنی امیہ کے لیے رمز ہے : (أبی سلامہ )۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے مز ہے : (ام شرور )اور (صاحبۃ الجمل’’اونٹ والی ‘‘ ) اور( عسکر بن ھوسر )۔
اس سے ان دونوں پہلوؤں (غلو کا پہلو اور طعن کا پہلو ) میں یہودیوں اور رافضیوں کے درمیان بہت بڑی مشابہت ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں تک اسلوب اور طریقہ کار میں اتفاق کے بعد ان کے الفاظ اور عبارات میں بھی اتفاق ہے۔ جو اس بات کی قطعی اور دو ٹوک دلیل ہے کہ رافضیوں کے ہاں ائمہ کی شان میں غلو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کی اصل یہودیوں سے لی گئی ہے۔ جیسے باقی رافضی عقائد کا حال ہے۔
اتنے دلائل پیش کرنے کے بعد صرف متکبر اور سرکش ہی ماننے سے انکار کرسکتا ہے، کسی اور کو اس کا انکار نہیں ہوسکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم!!
چوتھی بحث: …یہود اور روافض کے انبیاء و صالحین میں غلو اور طعن پررد
یہودیوں اور رافضیوں میں سے کوئی بھی اپنی محبت اور نفرت میں عدل پر نہیں، بلکہ یہ لوگ ظالم اور دونوں مواقف [محبت اور نفرت ]میں حق سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
اگر وہ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کی تعریف اور مدح میں مبالغہ کرتے ہیں، اور اگر کسی کو ناپسند کرتے ہیں تو اس پر طعن کرنے اور اس کی مذمت کرنے میں حد سے گزر جاتے ہیں۔جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں باتوں سے ڈرایا ہے ؛ اورعدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿یٰٓـاَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُونُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰی أَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (المائدہ: ۸)
’’ اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو (بلکہ) انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔‘‘
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ تمہیں کسی قوم کا بغض ان کے متعلق عدل کے ترک کردینے پر نہ ابھارے بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل سے پیش آؤ، خواہ وہ تمہارا دوست ہو یا دشمن۔‘‘ [1]