کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 429
کے بعد آپ نے ان میں خطبہ دیا اور فرمایا: ’’ اے لوگو! جن کے بدن جمع ہیں، مگر خواہشات مختلف ہیں۔ تمہارا کلام سخت گونگے کی طرح بے وقعت [کمزور ] ہے ؛ اور تمہارے کام [ایسے ہیں کہ ]دشمن تم میں طمع کرتے ہیں۔ تم اپنی مجلسوں میں ایسے اور ایسے کہتے ہو؛ [یعنی بڑی بڑھکیں مارتے ہو] اور جب جنگ کا وقت آتا ہے تو کہتے ہو ’’حیدی حیاد‘‘ [یعنی میرے ساتھ بھاگو ] [1]اس کی دعوت کبھی غالب نہ ہوسکی جس نے تمہیں [اپنے ساتھ ] بلایا ؛ اور نہ ہی اس کے دل کو راحت ملی جس نے تمہیں دوست بنایا۔ گمراہیوں کی علتیں ہیں، اور لمبے قرض والے جیسا دفاع ہے،کسی گھٹیا ذلیل کو بھی نہیں روک سکتا،اور نہ ہی انتہائی سخت کوشش کے بغیر حق کو پاسکتا ہے ؛ تمہارے [اس ] گھر کے بعد کون سا گھر ہے جس کی حفاظت کروگے، اور میرے بعد کس امام کے ساتھ مل کر قتال کروگے۔ اللہ کی قسم ! دھوکا کھایا ہوا وہ انسان ہے جس کو تم دھوکا دے دو۔ اور جو تم سے کامیاب ہوگیا اللہ کی قسم وہ رسواکن تیر سے کامیاب ہوگیا۔ اور جس نے تم سے تیر اندازی کی ؛ حقیقت میں اس نے بغیر پھل والا تیر پھینکا۔ اللہ کی قسم اب میرا یہ حال ہے کہ میں تمہاری بات کی تصدیق نہیں کرتا۔ اورنہ ہی تمہاری مدد کی امید کرتا ہوں اور نہ ہی تمہاری وجہ سے دشمن کو ڈراتا ہوں۔‘‘[2] یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی شان میں اتنے افراط سے غلوکرتے ہیں، مگر آپ ان کے رسوا کرنے اور جنگ کے وقت جدا ہوجانے کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی شیعوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد انکے بیٹوں کو بھی خجل کیا۔ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو تو بہت ہی زیادہ خجل کیا۔ انہیں ڈھیروں خط لکھ کر اپنے پاس بلایا۔ اور جب آپ ان کے پاس چلے گئے،آپ کے ساتھ آپ کے اہل خانہ،اقارب اور ساتھی بھی تھے؛ تو انہوں نے آپ کو اکیلے چھوڑ دیا؛ اور آپ کی مدد سے پیچھے ہٹ گئے۔ بلکہ ان میں سے اکثر دشمن کی خوف اور [منصب کی ] لالچ آکر میں دشمنوں کی صفوں میں جاملے۔ اورآپ کی شہادت اور آپ کے بہت سے اہل خانہ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، کی شہادت کا سبب بن گئے۔[3] انہوں نے ایسے ہی حضرت زید بن حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو بھی خجل کیا۔ ان لوگوں نے ان کے ساتھ مدد اور نصرت کا وعدہ کیا اورجب معاملہ سنگین ہوگیا، اور جنگ کی گھڑی آن پہنچی ؛ تو آپ کی امامت کا انکار کردیا،اس لیے کہ آپ نے خلفاء ثلاثہ [تین خلفاء راشدین ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ] سے بیزاری کا اعلان کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے آپ کو دشمن کے ہاتھوں میں اکیلا چھوڑ دیا ؛ وہ آپ کو لے کر کوفہ میں داخل ہوئے،اور آپ کو شہید کردیا گیا۔[4]