کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 426
اور رافضیوں نے اپنے ائمہ کی شان میں غلو کیا، یہاں تک کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا اطلاق کرنے لگے، اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کرنے لگے۔ اور ائمہ پر جھوٹ بولا کہ انہوں نے کہا ہے :
’’ ہم اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ ہیں، ہم رحمت کی جائے پیدائش ہیں ؛ ہم حکمت کی کانیں ہیں، اور علم کے چراغ ہیں۔‘‘
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ بولا کہ آپ نے فرمایا ہے :
’’ میں اللہ تعالیٰ کا علم ہوں، اور میں اللہ کا یاد رکھنے والا دل ہوں، اور اللہ کی بولتی ہوئی زبان ہوں، اور اللہ کی دیکھتی ہوئی آنکھ ہوں میں اللہ کا پہلو ہوں، میں اللہ کا ہاتھ ہوں۔‘‘
۳۔ یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بعض انبیاء غیب کی خبریں جانتے ہیں، مثلاً: ’’ان کاگمان ہے کہ حضرت دانیال علیہ السلام جانتے تھے کہ بارش کب نازل ہوگی۔‘‘
اور رافضی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ائمہ غیب جانتے ہیں اور یہ کہ ان پر آسمانوں اور زمینوں کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ اور وہ جانتے ہیں جو کچھ مردوں کی صلب [پیٹھ ] میں ہے،اور جو کچھ عورتوں کے رحم[بچہ دانی] میں ہے۔ اور وہ جانتے ہیں جو کچھ جنت میں ہے اور جو کچھ جہنم میں ہے اور جو کچھ ہوگیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب جانتے ہیں۔
۴۔ یہودی اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کا دین تین چیزوں کی تعلیم حاصل کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا، تورات کی تعلیم ؛ مشنات کی تعلیم اور غامارا کی تعلیم۔ اور کوئی بھی انسان ان تین تعلیمات سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ تلمود میں آیاہے :
’’بے شک تورات پانی سے مشابہ ہے، اور مشناۃ سرکہ (نبیذ ) سے مشابہ ہے، اور غامارا خوشبودار سرکہ سے مشابہ ہے۔ اور کوئی انسان ان تین کتابوں سے مستغنی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ کوئی انسان ان گزشتہ ذکرکردہ تین اصناف سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔‘‘
اور رافضی اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ بے شک اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے مکمل نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے ساتھ تعلیمات علی اور تعلیمات حسین رضی اللہ عنہما کا اضافہ کیا جائے۔اور کوئی بھی انسان ان تین تعلیمات سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ شیرازی کہتا ہے :
’’جیسا کہ اسلامی کیان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی محنتوں کی ضرورت تھی تاکہ وہ استقامت پر قائم رہے ؛ ایسے ہی اسلام کسی ایسے دل میں مکمل نہیں ہو سکتا جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی اور حسین رضی اللہ عنہما اکٹھے موجود نہ ہوں، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ابتدائی ہیں ؛ او ر علی رضی اللہ عنہ کی تعلیمات تربیتی ہیں، اور حسین رضی اللہ عنہ کی تعلیمات امدادی ہیں۔ جب تک یہ تینوں عناصر ایک ساتھ کار گر نہ ہوں،
[1] الفَرق بین الفِرَق ص: ۲۳۳۔