کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 421
بری خواہشات ہیں۔ وہ خواہشات جو اس کی حدی خواں ہیں ؛ اوروہ خواہشات جو اسے لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔‘‘[1] جب کہ دوسری فصل حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا پر طعن و تنقید کے لیے خاص کی ہے، اور اس فصل کا نام رکھاہے :’’ فصل في أختہا حفصۃ۔ ‘‘اس عنوان کے تحت جو کچھ لائے ہیں، ان میں ایک حضرت امام صادق پر جھوٹ باندھی ہوئی روایت بھی ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں فرمایا: ﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِہِ حَدِیْثاً﴾ (التحریم:۳) ’’ جب پیغمبر نے اپنی ایک بیوی سے ایک بھید کی بات کہی۔ ‘‘ [کہا] اس سے مراد حفصہ ہے۔ امام صادق نے کہا : وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں کافر ٹھہری ہے: ﴿ مَنْ أَنبَأَکَ ہَذَا﴾…’’ آپ کو یہ کس نے بتایا؟‘‘ اس کا خیال ہے کہ حضرت عائشہ نے حضرت حفصہ [ رضی اللہ عنہما ]کو خط لکھا تھا: ’’مجھ پر ذی وقار کے مقام پر نازل ہوا ہے : ’’اگر وہ آگے بڑھے توقربانی کرو، اور اگر پیچھے ہٹے تو کونچیں کاٹ ڈالو۔‘‘ سو حفصہ نے عورتوں کوجمع کیا اور وہ راگ بجانے لگیں، اور کہنے لگیں : کیا خبر ہے؟ کیا خبر ہے ؟علی سفر میں ہے۔ اگر وہ آگے آگیا تو قربانی کریں گے، اوراگر پیچھے رہ گیا تو کونچیں کاٹ ڈالی جائیں گی۔ پس ام سلمہ ان پر داخل ہوئی اور کہنے لگی : ’’اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی تو یقیناً اس سے پہلے اس کے بھائی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کر چکی ہو۔‘‘[2] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اورامہات المومنین رضی اللہ عنہم اجمعین پر طعن و تنقید کی یہ [چند ایک ]مثالیں ہیں جو رافضیوں کی کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں۔ ورنہ رافضیوں کی کتابیں اس طرح کی جھوٹی اور بودی روایات سے بھری پڑی ہیں جو انہوں نے اپنے ائمہ کی زبانی گھڑ لی ہیں۔ [جن میں ] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین بہترین لوگوں پر طعنے کسے گئے ہیں۔ [اور] جیسا کہ ان کے دل بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بغض وحسد اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔ تیسری بحث : …یہود اور روافض کی انبیاء و صالحین میں غلو اور طعن میں مشابہت انبیاء اور حاخاماموں کے متعلق یہودی موقف ؛ اور صحابہ اور ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم کے متعلق رافضی موقف بیان کرنے