کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 420
ہیں۔ اس فصل میں اس نے صدیقہ بنت صدیق اکبر رضی اللہ عنہما پر بہت سارے طعنے اورتنقید جمع کی ہے۔اس فصل میں اس نے جو کچھ کہا ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں [وہ کہتا ہے]:
’’لوگوں (یعنی اہل سنت والجماعت) نے اس سے بہت ساری احادیث روایت کی ہیں،اور یقینا ً عائشہ نے اپنے رب اور اس کے نبی کی اس فرمان میں مخالفت کی تھی : ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ﴾ (الاحزاب:۳۳) ’’اپنے گھروں میں قرار پکڑو۔‘‘
اورشیعہ[اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو] اللہ تعالیٰ کی جانب سے بری کردہ بہتان و الزام میں شک ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتا ہے : کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کے لیے اپنے اس فرمان میں براء ت پیش کی ہے:
﴿ أُوْلٰٓئِکَ مُبَرَّؤُنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ﴾ (النور:۲۶)
’’یہ (پاک لوگ) ان (بدگویوں ) کی باتوں سے بَری ہیں۔‘‘
ہم کہتے ہیں : یہ اللہ کے نبی کی زنا سے صفائی [پاکیزگی] ہے نہ کہ اس [یعنی حضرت عائشہ] کی؛ جیسا کہ مفسرین کا اس پر اجماع ہے۔‘‘
اور ایسے ہی وہ کہتا ہے: ’’انہوں نے کہا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس [عائشہ]سے ناپاکی کو دور کردیا ؛ ہم کہتے ہیں : اپنے امام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ سے بڑھ کر کون سی پلیدی [ناپاکی ]ہوسکتی ہے ؛ یہ سب سے بڑی فحاشی ہے۔‘‘
بے شک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَا نِسَائَ النَّبِیِّ مَن یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُضَاعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ ﴾ (الاحزاب:۳۰)
’’ اے پیغمبر کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ حرکت کرے گی اُس کو دگنی سزا دی جائے گی۔‘‘
تحقیق اس نے نوح اور لوط[علیہما السلام ]کی دو عورتوں کے متعلق خبردی ہے۔ بے شک ان دونوں کو اللہ کے ہاں کوئی بھی چیز کام نہ آسکی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائشہ اور حفصہ کے لیے ان دونوں کے کرتوتوں پر تعریض تھی ؛اور تنبیہ تھی کہ وہ دونوں اللہ کے رسول پر اعتماد نہیں کرتیں، پس بیشک [رسول اللہ]اللہ کے ہاں ان دونوں کو کچھ کام نہیں آئیں گے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعن سے بھرے کچھ شعر بھی درج کیے ہیں۔
[شعروں کا ترجمہ پیش ہے ]:
’’ وہ دو بد بختوں [حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما ] کے ساتھ ایک لشکر میں آئی جواپنے فوجیوں کو بصرہ کی طرف بڑھا رہی تھی۔ گویا کہ وہ اپنے فعل میں بلی تھی ؛ جواپنی اولاد کو کھا جانا چاہتی تھی۔ وہ اپنے اس فعل میں غصب کرنے والی تھی ؛اور جنگ کی آگ کو بھڑکانے والی تھی۔ بہت ہی بری ماں ہے، اور بہت ہی
[1] مقدمۃ النصائح الکافیۃ لمن یتولی معاویۃ ص : ۲۰۔
[2] دیکھیں : سابقہ بحث میں : صحابہ اور امہات المومنین پر طعن۔
[3] بحار الأنوار ۵۲/ ۳۱۴۔