کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 419
اس کتاب پر ان کے ایک معاصر عالم نے مقدمہ لکھا ہے، مگر اس عالم کا نام نہیں ذکر کیا گیا۔ اس نے کتاب اور کاتب کی تعریف کرنے کے بعد ان الفاظ میں اپنی بات ختم کی ہے : ’’ میں اپنی یہ بات سابقہ ذکرکردہ کلام کی طرف رجوع کرتے ہوئے ختم کرتا ہوں، پس میں کہتا ہوں : ’’اگر مولف اپنے اس معیار اور پیمانہ پر، جس پروہ اپنی اس کتاب میں چلا ہے، سارے صحابہ کے ساتھ ایسے ہی چلتا، تو یہ کتاب زیاہ کامل و شامل ہوتی لیکن ہمارے ہاں اس کا عذر ہے؛ شاید اس نے یہ مناسب نہیں جانا کہ اپنی اس کتاب میں ایسی تنقید پیش کرے، جس کی تفصیل لمبی ہو، او ر اس کی کئی آفتیں ہوں۔ تب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ فقط ایسے حساس نکتہ کے پاس رک جائے۔‘‘[1] امہات المومنین رضی اللہ عنہ کے متعلق رافضی موقف یہ ہے کہ یہ لوگ ان سے دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں ؛ اور انہیں دشمن تصور کرتے ہیں۔ ان کے عقیدۂ تبراء میں مجلسی کا کلام اس سے پہلے گزر چکا ہے ؛ کہ وہ حضرت اماں عائشہ اوراماں حفصہ رضی اللہ عنہما سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔[2] جیساکہ ان کی دعا ’’صنمی قریش ‘‘ کے اس جملہ میں بھی ان دونوں پر لعنت کی گئی ہے : ’’قریش کے دونوں بتوں پر لعنت کر؛ ان کے باطل مبعودوں پر ؛اور ان کے دونوں طاغوتوں پر،اور بہتان گھڑنے والوں پر؛اور ان دونوں کی بیٹیوں پر۔‘‘ اور اس پر مستزاد یہ کہ جب ان کا مزعوم امام قائم آئے گا تو وہ حضرت عائشہ پر حد لگائے گا، اور ان سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقام لے گا۔ مجلسی نے عبد الرحیم القصیر سے، اس نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں :[حقیقت میں سیدنا ابو جعفر رحمۃ اللہ علیہ ان کے جھوٹ سے بالکل بری ہیں ] ’’ جب ہمارا قائم نکلے گا، تو حمیرا[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا لقب] اس کے پاس لوٹائی جائے گی؛ حتی کہ وہ اس پر حد لگائے گا یہاں تک کہ اس سے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقام لے گا۔ میں نے کہا : اس پر حد کیوں لگائے گا ؟کہا : اس کے امِ ابراہیم (حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ) پر بہتان تراشنے کے سبب۔ میں نے کہا : اسے اللہ تعالیٰ نے قائم علیہ السلام کے آنے تک مؤخر کیسے کردیا؟کہا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا۔ اور قائم علیہ السلام کو عذاب بناکر۔‘‘[3] صراط مستقیم کے مصنف نے ام المؤمنین حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما پر طعنہ زنی کے لیے علیحدہ سے دو فصلیں قائم کی ہیں۔ پہلی فصل کا نام رکھا ہے : ’’فصل فی أم شرور‘‘اوراس سے مراد امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
[1] الشیعۃ الإمامیۃ ص: ۱۵۸۔ [2] الشیعۃ الإمامیۃ ص: ۱۵۹۔ [3] النصائح الکافیۃ لمن یتولی معاویۃ ص ۱۷۔ [4] النصائح الکافیۃ لمن یتولی معاویۃ ص : ۲۰۔ [5] النصائح الکافیۃ لمن یتولی معاویۃ ص : ۲۰۴۔