کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 418
اور یہ بے ایمان منافق انسان ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتے ہوئے کہتا ہے :
’’ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں یہ ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ (ذہن) کو مکدر کرے۔ اور آپ کو بعض بیویوں کے خلاف بغض پر ابھارتی تھی۔‘‘[1]
مزید کہتاہے : ’’ اور حق تو یہ ہے کہ جو کوئی عائشہ کا صحیفۂ حیات اچھی طرح پڑھے گا ؛ وہ جان لے گا کہ یہ (عورت) اپنے افعال؛ اقوال اور ساری حرکتوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیا کرتی تھی۔‘‘ [2]
ان کی معاصر کتابوں میں سے، جو کہ صحابہ کرام کی شان میں طعن و تنقید کرتی ہیں، ایک کتاب ؛ جس کے مؤلف نے اس کا نام رکھا ہے : ’’ النصائح الکافیۃ لمن یتولی معاویۃ۔‘‘ہے ؛[اس کے مؤلف کا نام ہے ] محمد بن عقیل علوی۔ یقیناً اس کتاب کے عنوان سے ہی اس کا مضمون معلوم ہو رہا ہے۔ اس خبیث راوی نے اپنی اس [رسوائے زمانہ ] کتاب میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر جھوٹے طعنوں کا وہ ڈھیر جمع کیا ہے جس پر اس کے سلف میں کوئی بھی معاویہ سے شدید بغض رکھنے کے باوجود سبقت نہیں لے سکا۔ گویا کہ وہ اپنی زبان ِ حال سے کہہ رہا ہے :
’’ میں اگرچہ آخری زمانے میں آیا ہوں، مگر میں وہ چیز لایا ہوں سابقہ گزرے ہوئے جس کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔‘‘
اس نے اپنی کتاب میں پہلا عنوان ہی اس سرخی سے قائم کیا ہے :
’’ معاویہ پر لعنت کرنا گناہ ہے یا نہیں۔‘‘؟[3]
اور عنوان کے آخر میں وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے (وہ کہتا ہے):
’’ جب ہم کتاب و سنت میں وارد معاویہ پر لعنت کرنے کے دلائل کی چھان بین کرتے ہیں ؛ اور اس کے ساتھ ہی جو کچھ اس سے متعلق اکابر صحابہ اور اہل بیت کی تفسیر ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ تعظیم اوررحمت کی دعا ؛ اور اس کوبڑا ماننے کے دلائل سے[لعنت کرنے کے دلائل] زیادہ قوی ہیں۔‘‘[4]
اپنی اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ وہ کہتا ہے :
’’ معاویہ اوراس کے ساتھی کسی دین کے پابند نہ تھے اور نہ ہی باطن [اپنے دل ] میں شریعت کا کوئی پاس رکھتے تھے بلکہ وہ مکر، فریب، خباثت، غدر ؛ جھوٹ، دھوکا دہی؛ اور تاویل استعمال کرتے تھے جس سے وہ اپنے مقاصد پورے کرسکیں، خواہ وہ شریعت میں جائز ہوں یا ناجائز۔‘‘[5]
[1] کشف الإسرار ص: ۱۵۵۔
[2] الشیعۃ الإمامیۃ ص: ۱۴۳۔
[3] الشیعۃ الإمامیۃ ص: ۱۴۳۔
[4] الشیعۃ الإمامیۃ ص: ۱۵۱۔