کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 415
کی ؛ اے اللہ ! ان پر ہر اس آیت کے بدلے لعنت کر جس میں انہوں نے تحریف کی ؛اور فریضہ جس کو ترک کیا؛ اورسنت جس کو بدل دیا؛ اور وہ رسمیں جن سے منع کیا ؛ اور وہ احکام جن کومعطل کردیا ؛ اور بیعت جس کو توڑ ڈالا؛ اور دعویٰ جس کو باطل کردیا ؛اور گواہی جس کا انکار کیا ؛ اور حیلہ کہ ایجاد کیا ؛ اور جس خیانت کو جگہ دی؛اور گھاٹی جس پر چڑھے؛ اوروہ سواری جسے انہوں نے لڑھکادیا ؛ اور وہ زینت جسے انہوں نے لازم پکڑا؛اور وہ گواہیاں جو انہوں نے چھپائیں ؛ اور وصیت جسے انہوں نے ضائع کیا۔ یا اللہ ! ان دونوں پر اپنے پوشیدہ رازوں اور ظاہری اعلانات میں بہت بڑی لعنت کر؛ جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے والی سرمدی لعنت ہو؛ جس کی مدت کبھی منقطع نہ ہو اور جس کے عدد کبھی ختم نہ ہوں، ایسی لعنت جس کی پہلی لوٹ کر آئے ؛ اور اس کی آخری حد ختم نہ ہو، نہ ان سے نہ ہی ان کے مددگاروں سے ؛ اور معاونین سے؛ اور ان سے محبت اور دوستی رکھنے والوں سے؛ ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں سے؛اور ان کی طرف میلان رکھنے والوں سے۔ اور ان کے لیے حجتیں پیش کرنے والوں سے ؛ اور ان کے کلام کی اقتدا کرنے والوں سے ؛ اور ان کے احکام کی تصدیق کرنے والوں سے؛ (چار بار کہو): اے اللہ ! انہیں ایسا عذاب دے جس سے جہنمی بھی پناہ مانگیں ؛ آمین یارب العالمین!! [1] یہ دعا :’’تحفہ عوام مقبول ‘‘نامی کتاب میں بھی ایسے ہی آئی ہے۔[2] اس کتاب کی توثیق شیعہ کے بڑے علماء کی ایک جماعت نے کی ہے، جن کے نام اس کتاب کے پہلے صفحہ پر درج ہیں۔ میں نے اس سے پہلے باب میں ان کے نام بھی ذکر کیے ہیں۔ ان کے ہاں اس دعا کی فضیلت کی وضاحت محسن کاشانی اس روایت میں کرتا ہے جسے وہ جھوٹ اور ظلم کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا ہے، [کہ انہوں نے کہا ہے کہ] حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں یہ دعا قنوت میں پڑھا کرتے تھے۔ اورفرمایا کہ : یہ دعا کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر و احد اور حنین کے موقع پر دس لاکھ تیر اندازی کرنے والا۔‘‘[3] پرانے رافضی علماء کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق یہ موقف اورعقیدہ ہے۔ رہے معاصرین، تووہ بھی ہر اس چیز کے بارے میں جو ان کی کتابوں میں وارد ہوئی ہے ؛اپنے اسلاف کے نقش ِ قدم پر چلتے ہیں ؛ اور اسے مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ شیعہ کے کبار معاصر علماء نے کتاب تحفہ عوام مقبول کی توثیق کی ہے وہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس کے صفحات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام؛ اورامہات المومنین رضی اللہ عنہم اجمعین پر طعن و تشنیع، اورگالیوں سے
[1] کہتے ہیں : جب انسان کا دین و ایمان نہیں رہتا تو اس کی عقل بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال دعا کے اس پیرائے میں ہے ؛اللہ ہی سے دعا کرتے ہیں کہ تو انہیں سقر، یعنی جہنم میں رکھ اور پھر اللہ ہی سے کہتے ہیں : تجھے کیا معلوم سقر کیا ہے۔ اگر اللہ کو معلوم نہیں تو پھر کس کو معلوم ہے؟؟ (فاعتبروا) (مترجم )