کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 409
کتابِ سلیم بن قیس میں علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛آپ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سوائے چار افراد کے سارے لوگ مرتد ہوگئے۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگ ہارون علیہ السلام اوران کے متبعین کی منزلت پر ہوگئے تھے۔ اور بچھڑے اور اس کے پیروکاروں کی منزلت پر۔ سو علی رضی اللہ عنہ ہارون علیہ السلام کے مشابہ ہے،اور عتیق[1] بچھڑے کے مشابہ ہے۔ اور اس میں عمر کی مشابہت سامری کی ہے۔‘‘[2] اور بصائر الدرجات میں ہے : ’’ ثمالی سے روایت ہے، وہ علی بن حسین علیہ السلام سے روایت کرتاہے، وہ کہتے ہیں : میں نے کہا : ’’ آپ پر قربان جاؤں میں آپ سے تین خصلتوں کے بارے میں سوال کروں گا۔ جن کے پوچھنے سے مجھے تقیہ آڑے آرہا ہے۔ کہا : تمہیں اس کی اجازت ہے۔ میں نے کہا : میں آپ سے فلاں اور فلاں کے بارے میں سوال کرتا ہوں [اس سے کون مراد ہیں ؟] کہا: ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتمام لعنتوں کے ساتھ، اللہ کی قسم ! یہ دونوں مرے، تو کافر اور اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔‘‘[3] مسعودی نے علی بن حسین سے روایت کیا ہے، بے شک انہوں نے کہا ہے: ’’تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھیں گے،اور نہ ہی انہیں پاک کریں گے؛ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: ہم میں داخل ہونے والا، جو ہم میں سے نہیں ہے۔ اور ہم سے خارج ہونے والا جو ہم سے ہے۔ اور یہ کہنے والا کہ ان دونوں کا اسلام میں کوئی حصہ / نصیب ہے؛ یعنی ان دو نوں بتوں کا۔‘‘[4] کلینی نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے نقل کیا ہے، وہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں : (( حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہُ فِیْ قُلُوبِکُمْ)) یعنی امیر المومنین علیہ السلام ((وَکَرَّہَ إِلَیْْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ)) الأول والثاني والثالث﴾[5] ’’ تمہارے لیے محبوب بنا دیااور اس کوتمہارے دلوں میں سجادیا ‘‘اس سے مراد امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔ اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کر دیا۔‘‘اس سے مراد پہلا دوسرا اور تیسرا ہیں۔‘‘[6]
[1] حق الیقین ص: ۵۱۹؛ فارسی سے عربی میں اس عبارت کا ترجمہ عبدالستار تونسوی نے کیا ہے ؛ دیکھو: بطلان عقائد الشیعۃ ص : ۵۳۔ [2] تفسیر القمي ۱/ ۲۱۴۔ [3] علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے ہندوستان کے ایک مشہور رافضی عالم سے ان مصطلحات کے معانی نقل کیے ہیں۔وہ کہتا ہے:’’روایت کیا گیا ہے کہ : زریق ازرق سے اسم مصغر ہے؛ اور حبتر کا معنی لومڑی ہے۔ پہلے سے مراد ابو بکر ہے ، اس لیے کہ اس کی آنکھیں نیلی تھیں۔ اور دوسرے سے مراد عمر ہے ؛ جو کہ اس کی مکاری اور چالبازی سے کنایہ ہے۔ الرد علی الدکتور علی عبدالواحد ص: ۲۰۷۔ [4] تفسیر العیاشي ۱/ ۲۴۶۔