کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 408
کرتے ہیں۔ اور چار عورتوں پر بھی : عائشہ، حفصہ؛ ہند ؛ اور ام الحکم ؛ اور ان کی تمام شاخوں،اور ماننے والوں پر [بھی تبراء کرتے ہیں ]۔ اور بے شک یہ لوگ روئے زمین پر سب سے بری مخلوق ہیں۔ اور بے شک اللہ اور اس کے رسول پر اور ائمہ پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ان کے اعدا پر تبراء نہ کرلیا جائے۔ ‘‘[1]
یہ مجلسی کی ذکر کردہ روایات ہیں اور جو باقی روایات میں ہے، جو کہ انہوں نے اپنے اماموں کی زبانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بہترین صحابہ؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین پر طعن کرتے ہوئے جھوٹ گھڑی ہیں، وہ ا س سے بڑھ کر اور زیادہ بری ہیں۔ ذیل میں ان روایات میں سے کچھ بطور مثال درج کی جارہی ہیں۔
قمی نے اپنی تفسیر میں ابو عبد اللہ علیہ السلام سے نقل کیا ہے، انہوں نے کہا ہے :
’’اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی نبی ایسا نہیں بھیجا مگر اس کی امت میں دو شیطان ہوا کرتے تھے،جو اسے تکلیف دیا کرتے۔ اور اس نبی کے بعد وہ دونوں لوگوں کو گمراہ کیا کرتے۔ نوح کے وہ دو ساتھی : فقنطیفوس اور خرام تھے۔ اورابراہیم علیہ السلام کے امت کے دو فرد مکثل اور رزام تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے وہ دو ساتھی : سامری اور مر عقیبا تھے۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کے یہ دوساتھی پولس اور مریتون تھے، جب کہ محمد کے یہ دو ساتھی حبتر اور زریق تھے۔‘‘[2]
حبتر سے مراد ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لیتے ہیں،جب کہ زریق سے مراد عمر رضی اللہ عنہ کو لیتے ہیں۔[3]
یہ ایسے رموز ہیں جن کا استعمال وہ اپنی کتابوں میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر طعن کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ تفسیر عیاشی میں بریدہ بن معاویہ سے روایت ہے: ’’بے شک اس نے ابو جعفر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا :
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ﴾ (النساء:۵۱)
’’ بھلا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے وہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں۔‘‘
’’تو ان کا جواب تھا کہ فلاں اور فلاں۔‘‘[4]
فلاں اور فلاں سے مراد ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کو لیتے ہیں ؛ جیسا کہ اصول کافی کے شارح نے واضح کیا ہے۔ [جیساکہ پہلے گزر چکاہے ]
[1] حصین بن منذر بن الحارث الرقاشی؛ ابوساسان ان کا لقب اور کنیت ابو محمد ہے۔ صفین کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امراء میں سے ایک تھے۔ ۱۰۰ ہجری میں انتقال ہوا۔ تقریب التہذیب ص ۱۷۱۔
[2] ابو عمرہ الانصاریٰ البخاری؛ صحابی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام رشید تھا۔ اور کہا گیا ہے کہ ان کا نام اسامہ تھا۔ ابن اسحق نے انہیں بدری صحابہ میں شمار کیا ہے۔اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔ تقریب التہذیب ص ۶۶۱۔
[3] الاختصاص: ص : ۶۔
[4] کافی کا شارح فلاں فلاں اور فلاں کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:[اس سے مراد] ابو بکر و عمر اور عثمان ہیں۔ الصافی شرح الکافی ص:۴۷؛ بواسطۃ احسان الٰہی ظہیر :الشیعۃ والسنۃ ص؛۴۲۔
[5] أصول الکافی ۱/ ۴۲۰۔