کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 405
ان کی کتاب ’’ علل الشرائع ‘‘ میں سماعہ بن مہران سے روایت ہے کہ وہ کہتا ہے :
’’جب قیامت کا دن ہوگا ایک منبر رکھا جائے گا ؛ جسے تمام مخلوق دیکھے گی۔ اس پر ایک آدمی چڑھے گا، اس کے دائیں طرف ایک فرشتہ کھڑا ہوگااور بائیں طرف ایک فرشتہ کھڑا ہوگا۔دائیں طرف والا فرشتہ آواز لگائے گا: اے لوگوں کے گروہ ! یہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ہیں جسے چاہیں جنت میں داخل کردیں۔ اوربائیں طرف والا فرشتہ آواز لگائے گا :’’ اے لوگو ! یہ حضرت علی بن ابو طالب علیہ السلام ہیں جسے چاہیں جہنم میں داخل کردیں۔‘‘[1]
ان میں سب سے عجیب و غریب قصہ جو کہ رافضیوں کی کتابوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو سے متعلق آیا ہے، وہ یہ کہ دابۃ الأرض (زمین کا جانور[2])آپ ہی ہیں ؛اور اس بارے میں ان سے بہت سی روایات منقول ہیں۔ حسن بن سلیمان نے ابو جعفر سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے :
﴿وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّۃً مِّنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ﴾ (النمل:۸۲)
’’ اور جب ان کے بارے میں (عذاب کا) وعدہ پورا ہو گا تو ہم اُن کے لیے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جو اُن سے باتیں کر ے گا۔‘‘
کہا : اس سے مراد امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔[3]
یہ ان کی عقل کمزور ہونے اورناسمجھ ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو زمین کا چوپایہ بنانے میں کون سی فضیلت ہے بلکہ آپ کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ زمین کے چوپائے ہیں ؛ یہ سب سے بڑی گستاخی اور آپ کی شان میں بے ادبی ہے۔ اس بات کو سارے اہل ِ عقل جانتے ہیں مگرصرف ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں، بلکہ سینوں کے اندر دل بھی اندھے ہوچکے ہیں ( جس کی وجہ سے ان کی سو چ و سمجھ کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے )
اور یہ عقیدہ بھی انہوں نے یہودیوں سے لیا ہے،جیسا کہ حسن بن سلیمان الحلی نے ’’ مختصر بصائر الدرجات ‘‘ میں سماعہ بن مہران کی روایت میں فضل بن زبیر، اور اس کی روایت اصبغ بن بناتہ سے نقل کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی ہے۔ وہ کہتا ہے : مجھ سے معاویہ نے کہا :
’’ اے شیعہ کی جماعت ! تم یہ گمان کرتے ہو کہ حضرت علی زمین کا چوپایہ ہے۔ میں نے کہا : ہم یہ کہتے ہیں کہ یہودنے یہ بات کہی ہے۔‘‘ تو انہوں نے جالوتیوں کے سردار کے پاس آدمی بھیجا۔ اور کہا : ’’تمہارے
[1] کتاب سلیم بن قیس ص: ۲۴۵۔
[2] کتاب سلیم بن قیس ص: ۲۴۸۔
[3] الاختصاص : للمفید ص: ۲۱۳۔