کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 403
اس موقع پر ان لوگوں سے سوال کیا جاسکتا ہے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کس چیز سے حضرت علی رضی اللہ عنہ میں شک ہوگا اوران کے ساتھ کفر کیسے ہوگا ؟اور ان پر ایمان کیسے ہوگا؟اور کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام مخلوق اور عبد کے مقام سے ہٹ کر کچھ اور ہے؟ جسے اگر کوئی ثابت نہیں مانے گا تو وہ علی رضی اللہ عنہ کا کفر کرنے والا یا ان میں شک کرنے والا ہوگا؟ یا آپ بھی یہ کہتے ہیں کہ: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق ہیں ؟اگر آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کی منزلت بندے اور مخلوق کی منزلت سے علاوہ کچھ ہے؛ تووہ منزلت کون سی ہے ؟اگر آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں، تو کوئی عاقل ایسا نہیں پایا جاتا جو اس بات کا انکار کرے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بندے اور مخلوق ہیں ؛ تو پھر ان روایات کے کیا معانی ہیں ؟ اس سوال کا جواب بھی رافضیوں کی روایات میں کئی دوسری جگہوں پر آیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رافضیوں کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منزلت عبودیت سے ذرا کم ہے،اور وہ ان کے بارے میں ربوبیت کاعقیدہ رکھتے ہیں۔ مجلسی کہتا ہے : باطن ِ اہل بیت کی تفسیر میں ہے، وہ فرمانِ الٰہی کے بارے میں کہتے ہیں : ﴿قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہُ ثُمَّ یُرَدُّ إِلٰی رَبِّہِ فَیُعَذِّبُہُ عَذَابًا نُّکْرًا﴾ (الکہف: ۸۷) ’’ کہا کہ جو (کفر و بدکرداری سے) ظلم کرے گا ہم اسے عذاب دیں گے، پھر (جب) وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ بھی اُسے بُرا عذاب دے گا۔‘‘ کہا : اسے امیر المومنین کے پاس لوٹایا جائے گا، اور وہ انہیں سخت برا عذاب دے گا یہاں تک کہ وہ کہے گا: ﴿یَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا ﴾ (النباء:۴۰)’’ہائے میرے لیے افسوس میں اگر مٹی ہوا۔‘‘ یعنی : ’’ میں ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کے شیعوں میں سے ہوتا۔‘‘وہ اس روایت پر تعلیق لگاتے ہوئے کہتا ہے: ’’یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لوٹایا جانا رب کی طرف ہو، اور اس سے قصد اس کی طرف لوٹایا جانا کیا گیا ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت مخلوقات سے حساب کے لیے مقر ر کر رکھا ہے۔ یہ مجاز عام طور پر پایا جاتا ہے۔یا (ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ) رب سے مراد امیر المومنین علیہ السلام ہوں۔ کیونکہ آپ ہی وہ ہستی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ علم اور کمالات میں مخلوق کی تربیت کی ذمہ داری سونپ دی ہواور وہی ان کے ساتھی اور دنیا اور آخرت میں ان پر حاکم ہیں۔‘‘[1] یہ ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اعتقاد ہے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رب ہے۔ اور آپ ہی دنیا اور آخرت میں مخلوق کے حاکم ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلی کی روایت میں گزر چکاہے جس کی صراحت ان کے گیارہویں صدی کے بڑے محدث اور سب سے بڑے انسائیکلو پیڈیا آف حدیث کے مؤلف محمد باقر مجلسی نے کی ہے۔
[1] المحاسن ، للبرقي ص ۸۹۔ [2] المحاسن ، للبرقي ص ۸۹۔ [3] أمالي الصدوق ص ۳۶۔ [4] أمالي الصدوق ص ۱۶۵۔