کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 401
’’ میں اللہ تعالیٰ کا علم ہوں ؛ اور میں اللہ تعالیٰ کا یاد کرنے والا دل ہوں ؛ اور میں اللہ تعالیٰ کی بولنے والی زبان ہوں ؛ اور اللہ کی دیکھنے والی آنکھ ہوں۔ اور میں اللہ کا پہلو ہوں ؛ میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوں۔ ‘‘[1]
نیز ابو جعفر سے روایت کیا گیا ہے، آپ کہا کرتے تھے :
’’ ہماری وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی گئی ہے، اور ہماری وجہ سے اللہ تعالیٰ کی معرفت ہوئی ہے، اور ہماری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا حجاب ہیں۔‘‘[2]
ان روایات سے ہمارے لیے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رافضی اپنے ائمہ کی شان میں کس قدر غلو کرتے ہیں۔یہاں تک انہوں نے ان (ائمہ) کو ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کا شریک بنادیا۔ یہاں تک کہ اس کے اسماء و صفات میں بھی انہیں شریک بنا یا؛ جب کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی رافضیوں کے ہاں بہت ہی بڑی منزلت ہے۔
جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ باقی ائمہ سے جداگانہ اورممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی شان میں تو اس قدر غلو کیا کہ ہر ایک حد کو پار کر گئے۔ اور آپ کے لیے رب معبود برحق کی جگہ بنالی۔ حضرت کی شان میں ان کے غلو میں سے یہ بھی ہے کہ : وہ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ جو حضرت علی سے دوستی رکھے گا، اسے عذاب نہیں دیا جائے گا، بھلے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہی کیوں نہ ہو۔ اور جو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھے گا اسے عذاب دیا جائے گا بھلے وہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں میں سے ہی کیوں نہ ہو۔
امالی میں صدوق سے روایت کیا گیا ہے کہ: ’’بے شک جبرئیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے ؛ اور کہا :
’’ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ بڑی شان والا آپ کو سلام کہتا ہے؛ اور کہتا ہے : ’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی میری رحمت ہے ؛ اور علی میری حجت ہے۔ اورجو علی سے دوستی رکھے میں اُسے عذاب نہیں دو ں گا؛ بھلے وہ میری نافرمانی ہی کیوں نہ کرے۔ اورجو اس سے دشمنی رکھے اس پر رحم نہیں کروں گا، اگر چہ وہ میری فرمانبرداری ہی کیوں نہ کرے۔‘‘[3]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
﴿ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاہِہِمْ إِن یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا﴾ (الکہف:۵)
’’بڑی سخت بات ہے جو اُن کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں کہ) جو کچھ یہ کہتے ہیں محض جھوٹ ہے۔‘‘
اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں شک کیا اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ میں ڈالے
[1] أصول الکافي للکلیني ۱/ ۳۹۹۔
[2] علم الیقین في معرفۃ أصول الدین ؛ للمحسن الکاشاني ۲/ ۵۹۷۔
[3] بصائر الدرجات للصفار ص ۸۱۔