کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 400
قول کے متعلق پوچھ رہا تھا: ’’ مجھ سے جو چاہو پوچھ لو، تم مجھ سے جس بھی چیز کے بارے میں سوال کروگے میں تمہیں اس کا جواب دوں گا۔‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’ کسی کے پاس بھی کوئی علم ایسا نہیں ہے مگر اس علم کی ابتدا حضرت علی سے ہوئی ہے۔ لوگ جہاں مرضی چاہیں چلے جائیں ؛ سو اللہ کی قسم ! ہر معاملہ یہاں سے ہی ہے ‘‘ (یہ کہہ کر) اپنے ہاتھ سے اس کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔‘‘[1] رافضیوں کے اپنے ائمہ کی شان میں غلو کے مظاہر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: (ان کے ائمہ) جب چاہیں انسانوں اور حیوانوں میں سے کسی بھی مردہ کو دوبارہ زندہ کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے فصل ’’رجعت ‘‘ میں اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ دلائل ذکر ہو چکے ہیں۔ رافضہ کے اپنے ائمہ کی شان میں غلو کے مظاہر میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اور صفات العلی کااپنے ائمہ پر اطلاق کرنا ہے اوران کی مدح میں اتنا مبالغہ کرنا کہ انہیں ربوبیت کی منزلت تک پہنچادیا۔ ایسے ہی انہوں نے فضائل ِائمہ میں ابو جعفر سے ایک لمبی حدیث روایت کی ہے، اس میں ہے : ’’اللہ کی قسم ! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء کے اوصیاء (وصی) ہیں۔ اور ہم ہی وہ مثانی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا کیا ہے۔ ہم نبوت کا شجر ہیں، اور رحمت کی کھیتی ؛ حکمت کی کانیں، اور علم کے چراغ۔ اور موضع رسالت ؛ اور ملائکہ کے اختلاف کی جگہ، اور اللہ تعالیٰ کے راز کا ٹھکانہ ؛ اور لوگوں میں اللہ جل جلالہ کی امانت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا بڑا حرم ہیں۔ اور اس کا وہ عہد ہیں جس کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی ؛ جس نے ہمارے عہد سے وفا کی اس نے اللہ کے عہد سے وفا کی۔اور جس نے اسے توڑا اس نے اللہ تعالیٰ کے ذمہ اور اس کے عہد کو توڑا۔ جسے ہم نے پہچانا اس نے ہمیں پہچان لیا، اور جس سے ہم لا علم رہے ؛ وہ ہم سے لا علم رہا۔ اور اللہ کی قسم ! ہم وہ کلمات ہیں جو آد م علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سیکھے،اور اس پر ان کی توبہ قبول ہوئی۔ ‘‘[2] اور ایسے ہی بصائر الدرجات میں ہاشم بن ابو عمار سے روایت ہے ؛ وہ کہتے ہیں : ’’ میں نے امیر المومنین علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا: میں اللہ کی آنکھ ہوں، اور میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوں ؛ میں اللہ کا پہلو ہوں ؛ اور میں اللہ کا دروازہ ہوں۔‘‘[3] ابو عبد اللہ سے روایت ہے، امیر المومنین علیہ السلام کہا کرتے تھے:
[1] الصدوق : العلل والشرائع ص ۵۔