کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 40
﴿وَمِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَّنْ إِنْ تَأْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآئِمًا ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ o﴾ (آل عمران: ۷۵)
’’اور اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اُس کے پاس ( روپوں کا ) ڈھیر رکھ دو تو تم کو ( فوراً) واپس دے دے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اُس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اُس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں ادا نہیں کرتے۔ یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان پڑھ لوگوں کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہو گا۔‘‘
۲۔دشمنی اور نفرت کو ہوا دینا :
یہودنے اسلام کومٹانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے اور اختیار کیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اہل مدینہ کے قبائل اوس اور خزرج کے دلوں میں ایام ِ جاہلیت کی بل کھاتی ہوئی پرانی دشمنیوں اور نفرتوں کو ہوا دینا شروع کیا۔ اس مقصد کی بار آوری کے لیے انہوں نے مسلمان ہونے والے اپنے پرانے ایام ِ جاہلیت کے حلیفوں اور پڑوسیوں سے کام لیا۔ تاکہ ان کی پشت پناہی اور آڑ میں فتنہ برپاکرسکیں جس کی تکلیف انہی کو ہو۔ اور اسی وجہ سے بعض نئے مسلمان ہونے والے لوگ ان کی چالوں کا شکار ہوگئے کیونکہ یہ ایام جاہلیت میں یہود سے بڑے مطمئن تھے۔ وہ یہ سمجھ نہیں سکے کہ ان مکاریوں کے پیچھے کس آگ کو ہوا دی جاری ہے اور اس کے نتائج ان کی ذات کے لیے اور اس نئے دین کے لیے جو انہوں نے اختیار کیا ہے کس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں۔[1]
اس کی دلیل ابن ہشام کی نقل کردہ روایت ہے کہ :
’’ شاس بن قیس جوکہ بوڑھا اور بہت بڑا کافر تھا ؛مسلمانوں کے خلاف بہت سخت کینہ اور حسد رکھتا تھا[2] (اس) کا گزر اوس اور خزرج میں سے کچھ اصحاب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس پر ہوا۔ وہ اکٹھے بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ وہ اسلام کی وجہ سے ان کی آپس میں دوستی اور پیارومحبت دیکھ کر جل بھن گیا؛ حالانکہ ایامِ جاہلیت میں ان کی آپس میں دشمنی ہوا کرتی تھی۔ اس نے کہا : ’’ یہ بنو قیلہ[3]کے رؤساء اس ملک میں جمع ہوئے ہیں۔ اللہ کی قسم ! جب یہ سردار اکٹھے ہوگئے تو ان کے ساتھ ہمار ا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔‘‘ پھر اس نے اپنے پاس موجود ایک یہودی نوجوان کو حکم دیا ؛ اور کہا : ’’ ان کے پاس چلے جاؤ اور ان
[1] أنظر: جواد علی :تاریخ العرب قبل الإسلام ۶/۱۳۲۔
[2] اس بوڑھے یہودی کا وصف بیان کرنے کے لیے روایت میں ’’عسا‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور ’’عسا‘‘ کا معنی ہے : اشتد وقوی؛ یرید أنہ تمکن في کفرہ فصعب إخراجہ منہ۔ الفیروز آبادي القاموس المحیط ؛۴/۳۶۲۔
[3] بنو قیلۃ : بطن من الأزد من کہلان من القحطانیۃ؛ وہم الأوس والخزرج۔ القلقشندي نہایۃ الأرب في معرفۃ إنسان العرب :۴۰۴۔