کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 398
کی طرف منسوب کرتے ہیں، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے تین چیزیں دی گئی ہیں ؛ اور علی ان میں میرا شریک ہے۔ اور علی کو تین چیزیں دی گئی ہیں جن میں میں علی کا شریک نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا : اے اللہ کے رسول! وہ تین چیزیں کیا ہیں جن میں علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے حمد والا جھنڈا دیا گیا ہے، اور علی اس کے اٹھانے والے ہیں۔ اور نہر کوثر میری ہے، اور علی اس کے ساقی (میزبان) ہیں۔ اور جنت اور جہنم کا اختیار مجھے ہے، اور اس کی تقسیم کرنے والے علی ہیں۔ اور جو تین چیزیں حضرت علی کو دی گئی ہیں اور میں ان میں شریک نہیں ہوں : بے شک انہیں شجاعت دی گئی ہے، اور مجھے ان جیسی شجاعت نہیں ملی۔ اور انہیں فاطمہ زہرا جیسی بیوی ملی ہے، مجھے اس جیسی کوئی بیوی نہیں ملی اور انہیں حسن اور حسین دیے گئے ہیں، اور مجھے ان جیسا کوئی نہیں دیا گیا۔‘‘[1] شیعہ بد بختوں نے اللہ کے رسول اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر جوعظیم جھوٹ گھڑا ہے،اللہ تعالیٰ انہیں ان کی ان باتوں کا ایسا بدلہ دے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یقینا وہ جاننے اور سننے والا ہے۔ شیعہ کے ہاں جو بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونے کے عقیدہ کو پختہ کرتی ہے، وہ ’’امالی‘‘ میں صدوق کی روایت ہے، جسے اس نے ظلم اور بہتان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے ؛ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ علی بن ابی طالب خیر البشر ہیں، جس نے اس کا انکار کیا، اس نے یقیناً کفر کیا۔‘‘[2] یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم پر فضیلت دینے کی ایک دوسری دلیل ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس عموم بشریت میں داخل ہیں جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت جتائی گئی ہے۔ جب کہ ان کے معاصر امام اور آیۃ اللہ العظمی،[اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانی ] آیۃ اللہ الخمینی اس کا عقیدہ ہے کہ آپ (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) تمام ائمہ سے افضل ہیں ؛ جن کے مقام کو نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ پاسکتا ہے، اور نہ ہی کوئی اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نبی۔ وہ کہتا ہے : ’’بے شک امام کے لیے ایسا مقام ِ محمود ہے، اور ایسا بلند درجہ ہے ؛ اور ایسی تکوینی خلافت ہے جس کے غلبہ اور ولایت کے سامنے ساری کائنات؛ اور اس کائنات کا ہر ایک ذرہ جھکے ہوئے ہیں، اور ہمارے مذہب کی ضروریات میں سے ہے کہ : ’’بے شک ہمارے ائمہ کے لیے ایسا مقام ہے جسے نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ پاسکتا ہے، اور نہ ہی کوئی نبی مرسل۔ ‘‘[3]
[1] المصدر السابق ۲۵/ ۳۵۲۔ [2] الشعائر الحسینیۃ : حسین الشیرازی ص ۱۳- ۱۴۔