کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 397
وہ روایات جو اس عنوان کے تحت نقل کی گئی ہیں، ان میں سے سعید الاعرج سے روایت ہے، وہ کہتا ہے : ’’ میں اور سلیمان بن خالد ابو عبد اللہ جعفر بن محمد علیہما السلام پر داخل ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے ابتدا کی اور کہا : ’’اے سلیمان! جو کچھ امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہو، اسے قبول کیا جائے گا اور جس چیز سے انہوں نے منع کیا ہے، اس سے رکنا ہوگا۔ اور ان کی فضیلت ویسے ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام خلق پر ہے۔ امیر المومنین پر کسی چیز میں عیب لگانے والا ایسے ہی ہے جیسے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عیب لگانے والا۔ اور ان کی کسی بھی چھوٹی یا بڑی بات کو رد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی حد پر ہے۔ حضرت امیر المومنین اللہ تعالیٰ کا وہ دروازہ تھے جس سے آیا جاتا تھا۔آپ اللہ تعالیٰ کی وہ راہ ہیں جس نے اس کے علاوہ کسی اور راہ کو اختیار کیا وہ ہلاک ہوگیا۔ اور ایسے ہی یہ حکم آپ کے بعدایک ایک کرکے ائمہ کے لیے جاری ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین کے ارکان (ستون) بنایا ہے۔ اور یہ زمین پر موجود اور تحت الثریٰ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہیں۔‘‘[1] شیعہ اس بات کا بھی اعتقادرکھتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے اسلام مکمل ہوجائے ؛ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ساتھ ائمہ کی تعلیمات کا اضافہ ہونا ضروری ہے۔ اور کسی مسلمان کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو قبول کرلے اور ائمہ کی تعلیمات کو ترک کردے۔ ان کا ایک معاصر عالم حسن شیرازی کہتا ہے : ’’ جیسا کہ اسلامی محاذ استقامت پر قائم رہنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی اور حضرت حسین کی کاوشوں کا محتاج تھا۔ ایسے ہی کسی دل میں اسلام اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور حضرت حسین اکٹھے نہ ہوں، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ابتدائی ہیں۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعلیمات تربیتی ہیں اور حضرت حسین کی تعلیمات امدادی ہیں۔ جب تک یہ تینوں عناصر حرکت میں نہیں رہیں گے، اس وقت تک اسلام اپنے وجود کی طرف ظاہر نہیں ہوسکتا۔ ‘‘[2] رافضہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سر کشی کرتے ہوئے اس سے بھی آگے بڑھ گئے۔ جب وہ یہ گمان کرنے لگے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کچھ فضائل ایسے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی نہیں تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت دیتے ہیں۔ صدوق سے روایت کیا گیا ہے، جس کو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] انوار النعمانیہ ۱/ ۲۰-۲۱۔ [2] بحار الأنوار : ۲۵-۳۵۲۔