کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 396
مذکورہ نقول سے ہمارے لیے (قدماء اور معاصرین) رافضہ کا اجماع واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام لوگ ائمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہیں۔ اور یہ کہ ائمہ کے لیے، سہو، نسیان، غفلت اور خطاء کا ہونا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ اور یہ ان تمام امور میں انبیاء کی طرح ہیں۔ سو جس چیز کا صادر ہونا انبیاء سے جائز نہیں، اس چیز کا ائمہ سے صادر ہونا بھی جائز نہیں ہے۔ یہ رافضیوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے ائمہ انبیاء اور مرسلین (جن اولو العزم بھی ہیں ) سے بڑھ کر افضل ہیں۔ یہ عقیدہ بذات خود ائمہ کی شان میں ایک بہت بڑا غلو ہے۔ نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب ’’انوار نعمانیہ‘‘ میں امامیہ فرقہ کی انبیاء اور ائمہ میں فضیلت کے متعلق رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’ یہ بات جان لیجیے کہ ہمارے اصحاب (رضوان اللہ علیہم) کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ متواتر اخبار کی روشنی میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء (علیہم السلام) سے افضل ہیں۔ اختلاف صرف امیر المومنین اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا سوائے ان کے نانا کے باقی انبیاء سے افضل ہونے کے بارے میں ہے۔ ’’سو ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ اولو العزم انبیاء کے علاوہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ بیشک یہ اولو العزم انبیاء ائمہ علیہم السلام سے افضل ہیں ؛اور بعض ان سب کے درمیان مساوات کے قائل ہیں۔ اور متاخرین ائمہ کی اکثریت کو اولو العزم اور دوسرے سب انبیاء پر فضیلت دیتے ہیں اور یہی رائے درست ہے۔‘‘[1] الجزائری کا یہ کہنا کہ : ’’ ان کے نانا کے علاوہ ‘‘ یہ بھی صرف ایک من بہاتے ہوئے دھوکے اورمنافقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ اس لیے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ ائمہ فضیلت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہیں۔ اس پر بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں جو ان کی امہات کتب میں مذکور ہیں ؛ جن میں سے بعض کو مجلسی نے بحار الأنوار میں ایک مستقل باب میں نقل کیا ہے، اس کا نام ہے : ((باب : أنہ جری لہم من الفضل والطاعۃ ما جری لرسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم، وأنہم في الفضل سواء۔)) باب : یہ کہ یقیناً ان کے لیے بھی ویسی ہی فضیلت اور اطاعت ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے، اور یہ کہ یہ تمام فضیلت میں برابر ہیں۔‘‘[2]
[1] إبراہیم الموسوي الزنجانی ، عقائد الاثنی عشریۃ ۲/ ۱۵۷۔ [2] عقائد الإمامیہ : المظفر ص ۱۰۴۔ [3] المرجع السابق ۱۰۶-۱۰۷۔ [4] الحکومۃ الإسلامیۃ ص ۹۱۔ [5] المرجع السابق ص ۱۱۳۔