کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 392
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگ مرتد ہوگئے تھے، سوائے تین کے۔ میں نے کہا : وہ تین کون تھے۔ فرمایا: یہ تین ہیں :حضرت مقداد بن اسود ؛ اورحضرت ابو ذر غفاری ؛ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہم۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد لوگوں نے پہچان لیا۔ اور فرمایا یہی لوگ تھے جن پر (ظلم کی ) چکی چلی۔ اور انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ یہاں تک کہ امیر المومنین کو زبردستی پکڑ کر لائے، اور انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بیعت کی۔‘‘[1] جب رافضیوں نے اپنے بڑے بابا عبد اللہ بن سبا کی قیادت میں دیکھا کہ لوگ ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصی ہونے کے، اور باقی صحابہ کے کافر ہونے کے دعویٰ کوبغیر دلیل کے قبول نہیں کریں گے ؛ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل، اور دعویٔ نص میں ہزاروں حدیثیں گھڑ لیں۔ اور پھر تقریبًا ان کے برابر ہی احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومِ صحابہ پر طعن میں گھڑ لیں۔ خاص کر تین خلفاء کے متعلق تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا باقی تین خلفاء پر خلافت کا زیادہ حق دار ہونے کا پلڑا بھاری نظر آئے۔ پھر ان مبالغہ آمیز مناقب کو، جو کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیے تھے؛ اپنے ہاں امامت کے لیے شرط بنادیا گویا کہ انہوں نے یہ مناقب اپنے ائمہ میں سے ہر ایک کے لیے ثابت کیے ؛ اور ان روایات میں بہت بڑا جھوٹ بولا جو انہوں نے اپنے ائمہ کی زبانی اپنی کتابوں میں بھر دی ہیں۔ رافضہ کے یہ منہج اختیار کرنے کے بعد، یعنی اپنے ائمہ کی امامت ثابت کرنے کے لیے ان کی شان میں غلو، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں طعن اور گستاخی ؛ انہوں نے اسے اپنے فاسد مذہب کے اصولوں میں سے ایک اصول بنا لیا ؛ اور ایک ایسا میزان بنایا جس سے وہ لوگوں کا وزن کرسکیں تاکہ رافضی کی غیر رافضی سے پہچان ہوجائے۔ اور اس اصول کو وہ اپنی کتابوں میں ((الولاء و البراء)) سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘[2] اس بحث میں میں ان شاء اللہ رافضہ کے ان دونوں مواقف کے متعلق ہی گفتگو کروں گا: ۱۔ ائمہ کے متعلق غلو کا موقف یہاں تک کہ انہیں الوہیت کے مرتبہ تک پہنچادیا۔ ۲۔ صحابہ کرام پر طعن کا موقف، یہاں تک کہ انہیں ملت اسلامیہ سے خارج کردیا۔ اور اس بارے میں رافضیوں کی کتابوں میں مذکور وہ مثالیں ذکر کروں گا جو ان کے ہاں معتمد اور ثقہ ہیں۔ اور وہ روایات جو ائمہ کی طرف منسوب ہیں،علاوہ ازیں ان کے علماء کے اقوال ان مذکورہ بالا دونوں مواقف کے متعلق۔
[1] اصحاح ۲۳ ؛ فقرہ ۱۳-۱۴۔ [2] اصحاح۵ ؛ فقرہ ۳۱۔ [3] اصحاح ۲۸ ، فقرہ ۷۔ [4] اصحاح ۲۳ ، فقرہ ۱۱۔