کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 389
نکال لایا ہے۔‘‘[1]
جب کہ حضرت داؤد علیہ السلام پر اپنے لشکر کے ایک کمانڈر کی بیوی کے ساتھ زنا کا الزام لگاتے ہیں۔ اور پھرجب ان کو علم ہوگیا کہ یہ عورت ان سے حاملہ ہے تو اس عورت کے شوہر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ صموئیل کے سفر دوم میں ہے کہ
’’شام کا وقت تھا؛ داؤد اپنی چارپائی سے کھڑے ہوئے اور بادشاہ کے گھر کی چھت پر چلنے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ چھت پر ایک عورت نہا رہی ہے۔ یہ عورت بہت ہی زیادہ خوبصورت تھی۔ داؤد نے ایک آدمی بھیجا اور اس عورت کے متعلق دریافت کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا : یہ وہی ’’بتشبع ‘‘ بنت ’’الیعام ‘‘ زوجہ ’’ أوریا، ہے۔ سو داؤد نے ایک قاصد بھیجا، اور اسے بلا لیا۔ جب وہ ان کے پاس گئی ؛ تو وہ ان کے ساتھ لیٹ گئے؛ حالانکہ وہ ان کے چھونے سے بالکل پاک تھی۔ پھر جب واپس اپنے گھر گئی تو یہ عورت حاملہ ہوگئی۔ اس نے ایک قاصد بھیجا اور داؤد علیہ السلام کو خبر دی کہ وہ حاملہ ہے۔ صبح کے وقت داؤد علیہ السلام نے یو آب کے نام ایک تحریر لکھی،اور أوریا کے ہاتھ اسے بھیجا۔ اور اس خط کی عبارت کچھ یوں تھی: ’’ أوریا کو سخت لڑائی والی جگہ پر تعینات کردو اور اس کے پیچھے سے پلٹ جاؤ، تاکہ یہ قتل کردیا جائے ؛[پس ایسے ہی ہوا اور وہ مارا گیا]۔ جب أوریا کی بیوی کو اس کی موت کا علم ہوا، اس نے اپنے شوہر کا سوگ منایا، اور نوحہ کرتی ہوئی نکلی۔ داؤد نے ایک قاصد بھیجا اور اسے اپنے گھر بلا لیا، اور یہ عورت اب ان کی بیوی بن گئی اور اس سے بیٹا بھی پیدا ہوا۔‘‘[2]
اس نص میں یہودیوں نے اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کی طرف ایسے شخص کی بیوی کے ساتھ زنا منسوب کیا ہے جو آپ کے لشکر میں آپ کی قیادت میں جہاد کررہا تھا۔ اوردھوکہ کرتے ہوئے اس آدمی کے قتل کرنے کی سازش بھی آپ کی طرف منسوب کی ہے۔ اپنی مقدس کتاب میں جس کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی نازل شدہ ہے ؛یہ دو اتنے بڑے اور گھناؤنے جرائم اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہودیوں کو ذرابھر بھی شرم نہیں آئی۔
جب کہ اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق یہودیوں نے ایسا تصور پیش کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نبی ایک عیاش قسم کے بادشاہ تھے، جن کی تمام تر رغبت اور فکر اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنا تھا۔ کثرت کے ساتھ کھانا پینا، اور کثرت کے ساتھ عورتیں رکھنا، اور آخر کار انہی عورتوں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہٹا کر بتوں کی عبادت پر لگا دیا تھا ؛ جیسا کہ ان لوگوں کا ایمان و گمان ہے۔
[1] سفر تکوین ، اصحاح ۱۹ ، فقرہ (پیرایہ ) ۳۰-۳۶۔