کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 388
ہیں۔ ان مطاعن سے متعلق ان کے اسفار میں وارد ہونے والی چند نصوص کے ذکر پر اکفتا کروں گا۔ اللہ کے نبی حضرت لوط علیہ السلام پر لگائے گئے انتہائی قبیح الزامات میں سے ایک انتہائی بیہودہ اور ظالمانہ الزام یہ ہے کہ (توبہ نعوذ باللہ) حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی دونوں بیٹیوں سے زنا کیا۔ اس الزام سے متعلق نص؛ جس کا اللہ تعالیٰ ہی ان کو بدلہ دے گا، سفر تکوین کے اصحاح ۱۹ میں یوں آیا ہے : ’’ لوط صوغر (جھونپڑے ) سے اوپر چڑہے، اور پہاڑ میں رہائش اختیار کی، اور ان کی دونوں بیٹیاں ان کے ساتھ تھیں۔ اس لیے کہ آپ جھونپڑے میں رہنے سے ڈرتے تھے، سو آپ اور آپ کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہے۔ بڑی نے چھوٹی سے کہا : آؤ ہم اپنے باپ کو شراب پلاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہم بستری کرتی ہیں۔پس ہم اپنے باپ کی نسل کو (اس طرح ) زندہ رکھیں گی۔ سو ان دونوں نے اس رات اپنے باپ کو شراب پلائی۔عذراء داخل ہوئی اور باپ کے ساتھ ہمبستری کی۔ انہیں اس کے لیٹنے اور اٹھنے کا پتہ نہیں چلا۔ دوسرے دن عذراء نے چھوٹی سے کہا : گزشتہ رات میں اپنے باپ کے ساتھ لیٹی تھی، آج ہم پھر باپ کو شراب پلاتی ہیں، اور تم اس کے پاس چلی جاؤ اور ہم بستری کرو۔ پس ہم اپنے باپ کی نسل کو زندہ رکھیں گی۔ سو دوسری رات بھی ان دونوں نے اپنے باپ کو شراب پلائی اور چھوٹی اٹھی اوراس کے ساتھ لیٹ گئی۔ انہیں اس کے لیٹنے اور اٹھ جانے کا علم نہ ہوسکا سو اس طرح لوط علیہ السلام کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حمل سے ہوگئیں۔‘‘ [1] سبحان اللہ ! اللہ کے انبیاء پر یہ کس قدر بڑا اور گندا بہتان ہے۔ اللہ کے نبی ہارون علیہ السلام پر اس سے بھی بڑا بہتان تراشا۔ اس طرح کہ وہ گمان کرنے لگے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے کوہ ِ طور سے واپس آنے میں تاخیر کردی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے لیے سونے کا بچھڑا تیار کیا تاکہ وہ اس کی بندگی کریں۔ سفر خروج میں آیا ہے : ’’جب لوگوں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ سے اترنے میں تاخیر کردی ہے ؛ توقوم کے لوگ حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس جمع ہوئے، اورکہنے لگے : ’’ اٹھیے اور ہمارے لیے ایک معبود بنائیں، جو ہمارے آگے آگے چلتا رہے کیونکہ جو موسیٰ ہمیں سر زمین مصر سے لے کر آئے ہیں، پتہ نہیں ان کا کیا بنا۔ تو حضرت ہارون علیہ السلام نے ان سے کہا : ’’ سونے کے وہ کڑے جو تمہاری بیویوں ؛ بیٹوں اور بیٹیوں کے کانوں میں ہیں نکال کر میرے پاس لاؤ۔‘‘ تو پوری قوم نے اپنے کانوں سے کڑے نکال دیے، اور لے کر حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے اسے ہاتھوں میں لیا اور اس سے بولتے ہوئے بچھڑے کی صورت تیار کی۔ اور ان لوگوں سے کہا : اے بنی اسرائیل ! یہ تمہارا وہ معبود ہے جو تمہیں مصر سے
[1] ڈاکٹر روہلنج: ’’ الکنز المرصود ص ۴۶۔ [2] پولس یوحنا : ہمجیۃ التعالیم الصہیونیۃ ص ۳۱۔ [3] ہمجیۃ التعالیم الصہیونیۃ ص ۳۱۔ [4] ڈاکٹر روہلنج: ’’ الکنز المرصود ص۴۷۔ [5] ڈاکٹر روہلنج: ’’ الکنز المرصود ص ۴۸۔