کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 384
پر عقیدہ و ایمان رکھتے ہیں۔ بشر میں اللہ تعالیٰ کے حلول کرجانے کے یہودی ایمان پر جو چیز پختہ دلیل ہے، وہ ان کے نبی حضرت اشعیا کا بیان ہے۔ وہ مسیح منتظر کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اسی کی نسل سے ایک قضیب نکلے گا، جس کی شاخیں اسی کی اصل سے پروان چڑھیں گی، اور اس میں رب کی روح حلول کر جائے گی۔ جو حکمت اور فہم کی روح ہوگی؛ مشورہ اور قوت کی روح ہوگی ؛ معرفت اور رب کے خوف کی روح ہوگی۔‘‘[1] ایسے ہی انہوں نے بعض انبیاء کی شان میں غلو کرتے ہوئے ان کے متعلق یہ عقیدہ بنالیا کہ وہ بعض غیبی امور جانتے ہیں، جیسا کہ ان کا گمان ہے کہ ’’ ایلیا ‘‘ یہ بات جانتے تھے کہ بارش کب نازل ہوگی۔سفر ملوک اول ( بادشاہوں کا پہلا سفر ) میں ہے : ایلیا نے آخاب سے کہا : ’’ اوپر چڑھ، کھا، پی، اس لیے کہ انہوں نے بارش کی آواز محسوس کر لی ہے۔ سو آخاب اوپر چڑھا تاکہ کچھ کھا پی لے۔ اور جب کہ ایلیا کرمل ( پہاڑ ) کی چوٹی پر چلا گیا اور وہاں سے زمین پر گرا؛ اور اپنے چہرے کو دونوں گھٹنوں کے درمیان میں کرلیا۔ اور اپنے خادم سے کہا: ’’چڑھ، اور سمند ر کی طرف جھانک ؛ وہ اوپر گیا، اور جھانکا۔ اور کہا : کچھ بھی نہیں ہے۔ تو انہوں نے کہا : سات بار ایسے کرو۔ اور ساتویں بار کہا : ’’ اوپر چڑھ اور آخاب سے کہہ :’’یہ انسان کی ہتھیلی کے برابر بادلوں کی چھوٹی سی ٹکڑی ہے جو کہ سمندر سے اٹھتی ہوئی آرہی ہے۔ اور کہا : اوپر چڑھ اور آخاب سے کہہ: اپنے آپ کو کَس لے، اور نیچے اتر آئے، کہیں بارش اس کا راستہ نہ روک لے اور یہاں سے وہاں تک آسمان بادلوں اور ہوا سے کالا ہوگیا، اور بہت سخت بارش ہوئی۔‘‘[2] یہ نص اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ ایلیا علیہ السلام نے بارش کی نشانیاں ظاہر ہونے سے قبل ہی اس کے متعلق جان لیا تھا بلکہ آسمان اس وقت بالکل صاف تھا، جیسا کہ ان کے خادم کا بیان ہے۔ جس بارش کے آثار دیکھنے کے لیے گیا تھا۔ اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ بارش کا نازل ہونا غیبی امور میں سے ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ اورایلیا کے متعلق یہودیوں کا یہ دعویٰ، ان کے اس اعتقاد کی وجہ سے ہے کہ ان کے انبیاء بعض غیبی امور بھی جانتے ہیں۔ جب کہ بعض حاخاموں کے متعلق یہودی غلو بعض انبیاء کی شان میں غلو سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ تلمود میں بہت ساری ایسی نصوص ہیں جو حاخاموں کے متعلق ان کے غلو کو ظاہر کرتی ہیں، خاص کر تلمود لکھنے والے حاخاموں کی شان میں۔
[1] الإصحاح ۳۲ ، فقرات ۲۴-۲۸۔ [2] سفر دانیال: اصحاح ۴ ، فقرہ (۸-۹)۔ [3] سفر دانیال: اصحاح ۵ ’ فقرہ ۱۱۔