کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 38
لانے والے اور آپ کی تصدیق کرنے والے ہوتے۔ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (تحریف سے پہلے) د ینی بنیادوں میں وحدت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد جمع ہوجاتے۔ اور ان کثیر تعداداور مختلف تقریرات کی بنیاد پرجن پر قرآن مشتمل ہے کہ یہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے۔‘‘[1]
لیکن یہود نے تمام توقعات کو الٹ دیا، او رتمام امیدوں پرپانی پھیر دیا۔ یہود مسلمانوں کے خلاف دشمنی پر اَڑ گئے اور اسلام سے اس وقت سے جنگ شروع کردی۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کی اوراسے اللہ تعالیٰ کی عبادت وتوحید کی دعوت کا مرکز بنایا۔
یہود یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ نیا دین ہمارے مد ِ مقابل ہے، اور قریب ہے کہ یہ ہمارے نفوذ کو ختم کردے، اور اس دینی قیادت کو چھین لے جس کے وہ دعویدار تھے۔
یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نا پسند کرنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے دین اور متبعین کو حسد؛ بغض، اور دشمنی کی نظر سے دیکھنے لگے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو ان کی دین اسلام سے دشمنی کھل کر سامنے آگئی۔
اب یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرنے لگے، اور اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے لگے۔
کتب سیرت میں دعوت اسلام کا قلع قمع کرنے کے لیے ان کی بہت سی مکاریوں اور سازشوں کا ذکر کیاگیا ہے۔ ان سازشوں کی گنتی کرنا بہت ہی مشکل ہے۔لیکن میں یہاں پر ان چند اہم وسائل کے ذکر پر اقتصار کروں گا جو یہود نے اسلام کے خلاف جنگ کے اس مرحلہ میں اختیار کیے۔
اقتصادی ناکہ بندی:
مسلمان مدینہ کے پہلے عہد میں سخت تنگی کا شکار تھے۔ مہاجر فقراء تھے، جن کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔ان میں سے جو مال و وسعت والا تھا اس نے اپنا مال مکہ میں چھوڑ دیا تھا اور اپنی جان بچاکر یہاں آگیا تھا۔ انصار میں سے جن لوگوں نے (اس وقت تک ) اسلام قبول کیا تھا ان کے پاس بھی مال کی کثرت و وسعت نہیں تھی۔
یہودیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سازش کی کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے دور رکھنے کے لیے ان کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے۔[2]
یہودی رؤساء نے مسلمانوں کی مالی مدد کو یکسر مسترد کردیا۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہودی رؤساء کے پاس کچھ مال قرض لینے کے لیے بھیجا؛ تاکہ اس سے اپنے معاملات نمٹا
[1] أنظر: جواد علی :تاریخ العرب قبل الإسلام ۶/۱۲۵۔
[2] انظر: عفیف طبارہ : الیہود في القرآن ص (۲۳)۔