کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 379
’’ کوئی بھی چیز نہیں ہے مگر اس کے بارے میں کتاب اور سنت موجود ہیں۔‘‘
اسی طرح ابو عبداللہ سے ہی روایت کیا گیا ہے، وہ کہتے ہیں :
’’کتاب اللہ میں تم سے پہلے کی خبریں ہیں اور جوکچھ تمہارے بعد ہونے والا ہے اس کی خبر ہے، اورتمہارے درمیان کے فیصلے ہیں اورہم اسے جانتے ہیں۔‘‘[1]
[دو فائدے ]
ان روایات میں غور و فکر کرنے والے کے لیے دو فائدے سامنے آتے ہیں :
پہلا فائدہ: ائمہ اہل بیت باقی سلف ِ صالحین امت کی طرح اس قرآن کی صحت کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اگر ایسے نہ ہوتا تووہ اپنے شاگردوں کو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہنے کی؛ اوران دو کے علاوہ باقی چیزیں چھوڑ دینے کی تلقین نہ کرتے۔ پھر ان کا یہ خبر دینا کہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کا بیان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہ ہو، اور ان کے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
دوسرا فائدہ: تحریف قرآن کے متعلق ان کی طرف منسوب روایات ان کے اقوال نہیں ہیں ؛ بلکہ وہ اس سے بری ہیں ؛ اور ان لوگوں سے بھی بری ہیں جنہوں نے یہ جھوٹ گھڑا ہے۔‘‘
ثالثاً: عقلی دلائل :
جس طرح نقلی دلائل رافضیوں کے عقیدہ تحریف قرآن کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ایسے ہی عقل بھی ان کے اس دعویٰ کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں تحریف کے عقیدہ کی وجہ سے بہت سارے ایسے مفاسد پیدا ہوتے ہیں جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات گرامی؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؛ صحابہ کرام اور ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم پر طعن و تنقید لازم آتی ہے۔
قرآن میں تحریف کے قول سے اللہ تعالیٰ پرطعن؛اور قرآن کریم کی حفاظت اورتحریف سے بچانے کے اپنے وعدہ سے بے وفائی کی تہمت لازم آتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے۔
اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن لازم آتا ہے کہ آپ نے پورا قرآن امت تک نہیں پہنچایا؛ بلکہ بہت ساری آیات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کیا جن کے بارے میں کسی اور کو علم نہیں ہوسکا۔
اس سے صحابہ کرام پر طعن لازم آتاہے ؛ جنہوں نے اپنی مصلحتوں اور مقاصد کی خاطر قرآن کو بدل ڈالا، جیسا کہ رافضی دعویٰ کرتے ہیں۔
اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد ائمہ کی شان میں طعن لازم آتاہے، اس لیے کہ انہوں نے وہ قرآن لوگوں
[1] اصول الکافی ۱/ ۶۲۔ورواہ المفید عن علی فی الاختصاص : ص ۲۸۱۔
[2] اصول الکافی ۱/۷۰۔
[3] اصول الکافی ۱/۵۹۔
[4] اصول الکافی ۱/۵۹۔