کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 373
اللہ تعالیٰ نے مومنین کو منع کیا ہے کہ وہ بات چیت میں اور افعال میں کافروں سے مشابہت اختیار کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود کلام سے وہ مراد لیتے تھے جس میں توریہ ہوتا ؛ اور اس سے ان کا قصد تنقیص کا ہوتا (ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنتیں ہوں) جب وہ کہنا چاہتے : ہماری بات سن، تو کہتے : راعنا، اور توریہ کرتے ہوئے اس سے مراد رعونت لیتے۔‘‘[1]
یہ وہ کچھ ہے جو یہود کے بارے میں قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔ رہ گئے رافضی ؛ تو ان کی کتابیں تحریف میں اس قسم کے جرم کے ارتکاب پر گواہی دیتی ہیں۔ آپ کے سامنے ان کی کتابوں سے چند اور مثالیں پیش کی جارہی ہیں :
فصل الخطاب میں حبیب بن عطیہ السجستانی سے روایت ہے، وہ کہتا ہے : میں نے ابو جعفر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں دریافت کیا :
﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی﴾ (النجم:۸)
’’پھر نزدیک ہوا اوراتر آیا۔‘‘
تو انہوں نے فرمایا: ’’ اے حبیب اسے مت پڑھو، بلکہ اس کو یوں پڑھو:
((ثُمَّ دَنَا فَتَدَاناٰ))
’’پھر نزدیک ہوا اورہمیں بھی نزدیک کیا۔‘‘[2]
اور اسی کتاب میں یہ بھی ہے: یزید العجلی سے روایت ہے،وہ کہتا ہے : میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا:
﴿لِنَفْتِنَہُمْ فَیْہ﴾ (الجن:۱۷)
’’ تاکہ ہم اس میں انہیں آزما لیں۔‘‘
کہا کہ: ’’یہ تحریف شدہ ہے،اللہ تعالیٰ نے ایسے فرمایا ہے :
((لَأَسْقَیْْنَاہُم مَّاء ً غَدَقاً ٭ لَا نَفْتِنَہُمْ فِیْہ)) [3]
’’ہم نے ان کو خوب وافر پانی پلایا، تاکہ ہم اس میں انہیں نہ آزمائیں۔‘‘
اور ابو جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے﴿تَصَدَّی ﴾ کو (تُصَدَّی) حرف ِ تا پر زبر کے بجائے پیش سے پڑھا۔ ﴿تَلَہّٰی﴾ کے تاء کو (تُلَہَّی) بھی زبر کے بجائے پیش سے پڑھا۔[4] (جس سے معنی بگڑ کر الٹ ہوگیا)
[1] تفسیر ابن کثیر ۱/۵۰۷۔