کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 370
رافضیوں کو تحریف کی اس قسم میں بھی ید طولیٰ حاصل ہے، جیسا کہ اس پر ان کی تفسیری روایات دلالت کرتی ہیں۔ جن میں انہوں نے خوب لمبا کھیل کھیلا ہے تاکہ حق معانی کو باطل کے ساتھ ملا دیں۔بالکل اسی طرح جس طرح ان کے یہودی اور عیسائی اساتذہ کا مشغلہ رہا ہے۔
رافضیوں نے اپنے ائمہ سے تفسیر قرآن میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں ؛ جن کا مقصد ان آیات کے معانی کو بگاڑنا ہے۔ اور مسلمانوں کو ان کے مقصود حقیقی سے دور رکھنا ہے۔ آپ کے سامنے ان میں سے بعض روایات پیش کی جارہی ہیں۔ کلینی نے عبد الرحمن بن کثیر سے روایت کیا ہے، فرمایا: میں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا :
﴿ہُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقُ﴾ (الکہف :۴۴)
’’حکومت سب اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا: امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت مراد ہے۔‘‘[1]
یہ حق کو باطل کے ساتھ ملانا ہے، اس لیے کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ اور ہر مومن مرد اور عورت سے ولایت / دوستی رکھنا مومن کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ﴾ (التوبہ:۷۱)
’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘
مگر ان کا اس آیت سے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی ولایت پر استدلال کرنا باطل ہے۔ اس لیے کہ اس آیت میں وارد لفظ ولایت اللہ تعالیٰ کے لیے تذلل اور خضوع کے معانی میں ہے، جیسا کہ اس پر مفسرین کے اقوال دلالت کرتے ہیں۔[2]
فرات الکوفی کی تفسیر میں ہے : ابو عبد اللہ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر مروی ہے:
﴿اِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ﴾ (التین:۶)
’’ مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے بے انتہا اجر ہے۔‘‘
فرمایا: ’’بے شک یہ مومن۔‘‘: یعنی سلمان، مقداد، عمار اور ابو ذر ہیں۔‘‘[3]
اس تفسیر میں بھی حق کو باطل کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس کایہ قول ’’ بے شک یہ مومن۔‘‘ حق ہے، اس کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ اور سارے مسلمان سلمان، عمار، اور ابو ذر رضی اللہ عنہم کے لیے ایمان کی گواہی دیتے ہیں۔ جیساکہ وہ باقی صحابہ
[1] ان آیات میں تحریف کی گئی ہے ؛ درست آیات اس طرح ہیں :﴿اِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ٭وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ٭لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ ٭ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ٭سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ ’’ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس میں رُوح الامین اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ صبح تک (امان اور) سلامتی ہے۔
[2] فصل خطاب۳۴۵۔
[3] درست تلاوت یہ ہے﴿اِنَّا أَعْطَیْْنَاکَ الْکَوْثَر٭فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ٭اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ ﴾’’ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے۔ تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ آپ کا دشمن عمرو بن العاص ہی بے اولاد رہے گا۔‘‘
[4] فصل خطاب۳۴۷۔