کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 37
سے وہ ہمیں ڈرایا کرتے تھے، ہم نے ان پر سبقت حاصل کی۔ہم ایمان لے آئے اور انہوں نے انکار کیا۔ ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں :
﴿وَلَمَّا جَآئَ ہُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُوْا مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ہُم مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہِ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ﴾ (البقرہ:۸۹ )
’’اور جب اللہ کے ہاں سے اُن کے پاس کتاب آئی جو اُن کی (آسمانی) کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے۔ اور وہ پہلے (ہمیشہ) کافروں پر فتح مانگا کرتے تھے تو جس چیز کو وہ خوب پہچانتے تھے جب اُن کے پاس آ پہنچی تو اُس سے کافر ہو گئے پس کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘
ابن اسحاق کہتے ہیں :دونوں کتاب والے یعنی یہود و نصاریٰ کے پادری اور درویش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کی بعثت سے قبل بھی بہت خوب جانتے تھے؛ اور اس زمانے کے متعلق بھی جس میں (عرب میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے تھے۔ اس لیے کہ جوصفات وہ اپنی کتب میں لکھی ہوئی پاتے تھے؛ اور جو ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ثابت ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا عہد ان کے انبیاء کے زمانہ میں اور ان کی کتابوں میں لیاتھا؛ وہ اہل شرک میں سے بت پرستوں کو خبر دیتے کہ دین ابراہیم لے کر مبعوث ہونے والے نبی کا نام احمد ہوگا۔ ایسے ہی یہ اپنے انبیاء کے عہد میں اور اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَ لَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْبًا عِندَہُمْ فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبَآئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ إِصْرَہُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِہِ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنزِلَ مَعَہُ اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o﴾ (الاعراف: ۱۵۷)
’’ وہ جو (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) رسول (اللہ) کی جو اُمی نبی ہیں، پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور بُرے کام سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو اُن کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو اُن پر حرام ٹھہراتے ہیں اور اُن پر سے بوجھ اور طوق جو اُن (کے سر) پر (اور گلے میں ) تھے اتارتے ہیں تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی، وہی مراد پانے والے ہیں۔‘‘[1]
متوقع تو یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں میں اپنی سند اور مدد پاتے اور یہود سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان
[1] ابن اسحاق : السیرۃ ص ۸۴۔