کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 368
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد ہے۔‘‘[1]
اور قمی اس بات کی یادہانی بھی کراتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں تقدیم اور تاخیر ہے:
﴿وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِلَّا الدَّہْرُ ﴾(الجاثیہ:۲۴)
’’ اور کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ (یہیں ) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہے۔‘‘
وہ کہتا ہے : ’’ دہریہ تو بعث بعد الموت کا اقرار نہیں کرتے، توپھر یہ آیت اس طرح ہوگی:
(( وإنما قالوا و نحیاو نموت۔))[2]
کافی میں ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے، انہوں نے کہا ہے یہ آیت ایسے نازل ہوئی تھی : ﴿ وَلَوْ أَنَّہُمْ فَعَلُوْا مَا یُوعَظُوْنَ بِہِ في عليٍ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ﴾[3]
اور اگر یہ اُس نصیحت پر کاربند ہوتے جو ان کو علی کے بارے میں کی جاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔‘‘[4]
اور فصل خطاب میں ہے : ابو عبد اللہ سے روایت ہے وہ کہتا ہے : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
((أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ بعلي٭ وَوَضَعْنَا عَنکَ وِزْرَک٭الَّذِیْ أَنقَضَ ظَہْرَکَ٭ فَإِذَا فَرَغْتَ من نبوتک فَانصَبْ علیًا وصیًا ٭ وَ إِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ في ذلک)) [5]
’’کیا ہم نے علی کے وسیلہ سے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا۔ جس نے تمہاری پیٹھ توڑ رکھی تھی۔ تو جب اپنی نبوت سے فارغ ہوا کرو تو علی کو اپنا وصی متعین کرو۔ اور اس کے بارے میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جایا کرو۔‘‘
نیز اسی کتاب میں ہے، امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین علیہم السلام سے ان کے دادا کے مبارک صحیفہ کے شروع
[1] تفسیر قمی ۱/ ۱۲۲۔