کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 366
’’ یہ وہ جہنم ہے تم دونوں جسے جھٹلایا کرتے تھے، تم دونوں اس میں ڈالے جاؤ گے۔ نہ تم اس میں زندہ رہوگے اور نہ ہی مروگے۔ ‘‘ قمی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے : اس سے مراد :’’ زریقا اور حبتر ہیں۔‘‘[1] اور کافی میں ہے : ابو عبد اللہ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر منقول ہے : ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنسَانُ اِنَّہُ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلاً ﴾ (الاحزاب: ۷۲) ’’ہم نے (بار) امانت آسمانوں اور زمین کو پیش کیا تو اُنہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اُس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔‘‘ کہا :اس سے مراد امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت ہے ‘‘[2] اور اسی(کافی ) میں ہے : ابو حمزہ سے روایت ہے وہ کہتا ہے : میں نے ابو جعفر سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر پوچھی : ﴿قُلْ اِنَّمَا أَعِظُکُم بِوَاحِدَۃٍ﴾( سبا:۴۶) ’’کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔‘‘ فرمایا: ((إنماأعظکم بولائۃ علی علیہ السلام ہي واحدۃ۔‘‘ التی قال اللّٰه تبارک و تعالیٰ ﴿قُلْ اِنَّمَا أَعِظُکُم بِوَاحِدَۃٍ﴾ …))۔’’ بے شک میں تمہیں ایک کی نصیحت کرتا ہوں، علی علیہ السلام کی ولایت کی۔ یہی وہ ایک ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قُلْ اِنَّمَا أَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ﴾[3] ایک روایت میں ہے : ’’ علی بن جعفر اپنے بھائی موسیٰ علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں :﴿ وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَقَصْرٍ مَّشِیْدٍ﴾ (الحج:۴۵)’’ اور (بہت سے) کنوئیں بیکار اور (بہت سے) محل ویران (پڑے ہیں )۔‘‘ فرمایا: بئر معطلہ سے مراد خاموش امام ہے۔ اور قصر مشید سے مراد امام ناطق ہے۔‘‘[4] ان کے علاوہ دیگرروایات بھی ہیں جن سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ تحریف کی اس قسم میں یہودیوں کے ساتھ اشتراک کوپختہ کرتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ روایات آیات ِ قرآنیہ کی تاویل اوراصلی اورصحیح معنی سے ہٹ کرکی گئی کو شامل ہیں ؛جو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مراد ہیں ؛ کی تفسیر کو متضمن ہیں۔ بلکہ بسااوقات یہ یہودیوں سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ جاتے ہیں ؛ان آیات کی تاویل کرتے وقت جو منافقین اور مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، (ان کے بارے میں کہتے ہیں ) یہ خیار صحابہ مثلاً خلفاء الراشدین اور بعض
[1] تفسیر ابن کثیر ۱/ ۵۰۷؛ تفسیر فتح القدیر ۱/ ۴۷۵۔ [2] تفسیر عیاشی ۱/ ۲۴۶۔ فلاں اور فلاں سے مراد ابو بکر وعمر کو لیتے ہیں۔ ( رضی اللہ عنہما ) [3] یہ آیت تحریف شدہ ہے، درست آیت یہ ہے : ﴿ہَذِہِ جَہَنَّمُ الَّتِیْ یُکَذِّبُ بِہَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (رحمن: ۴۳) ’’یہ وہ جہنم ہے جسے مجرم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘