کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 365
مشابہت کھل کر واضح ہو جائے۔
اول : کلام میں اپنی جگہ پر تحریف[یعنی معنوی تحریف] :
مفسرین نے ذکر کیاہے کہ’’ کلام میں اپنی جگہ پر[معنوی] تحریف‘‘ کا معنی یہ ہے کہ : کلام کی ایسی تفسیر کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی مراد سے ہٹ کرہو۔ اور الفاظ میں ایسی تاویل کی جائے جن کے بارے میں وہ نازل نہ ہوئے ہوں۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ کلمات میں اپنی جگہ پر تحریف کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہِ ﴾ (النساء:۴۶)
’’ اور یہ جو یہودی ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو اُن کے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی خبریں دیتے ہوئے فرمایا ہے :
﴿فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنَّاہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قَاسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہِ وَنَسُوْا حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہِ﴾ (المائدہ: ۱۳)
’’ تو اُن لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب ہم نے اُن پر لعنت کی اور اُن کے دلوں کو سخت کر دیا۔ یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اُن کا بھی ایک حصہ فراموش کر بیٹھے۔‘‘
یہ وہ خبریں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے یہود کے متعلق دی ہیں۔ جب کہ رافضہ کی وہ مثالیں جو اپنی جگہ پر تحریف قرآن پر دلالت کرتی ہیں، کتابوں میں بہت زیادہ ہیں ؛ جن کا شمار ممکن نہیں ہے۔ تفسیر عیاشی میں آیا ہے : بریدہ بن معاویہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو جعفر سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق پوچھا:
﴿اَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَابِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ﴾ (النساء:۵۱)
’’ بھلا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے کہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں۔‘‘
’’ تو ان کا جواب تھا فلاں اور فلاں۔‘‘[2]
تفسیر قمی میں ہے : ’’ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے پڑھا :
((ہذہ جہنم التي کنتما بہما تکذبان تصلیانہا، لا تموتان فیہا و لا تحییان۔))[3]