کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 362
پہلا موقف: یہودیوں کا ملک کو آلِ داؤد میں محدود کرنا ہے۔ میں نے اس موضوع سے متعلق خاص بحث میں اس کا سبب بھی بیان کردیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ بخت نصر کی یلغار اور اس کے ہاتھوں قیدی بنائے جانے کے بعد ان کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تویہ لوگ اپنے سنہری زمانے کو یاد کرکے رونے لگے جو کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں تھا۔ اور پھر یہ گمان کرنے لگے کہ ان میں جو وسعت ِ رزق، اور کشادگیٔ حیات تھی؛ اوران کا آپس میں اجتماع و اتحاد تھا، اس کا سبب خود حضرت داؤد علیہ السلام کی ذات تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے جناب حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کے متعلق روایات گھڑنی شروع کیں ؛ جن میں ان کی امامت کی طرف دعوت اور بادشاہی کوان کی آل میں محدود کرنے کی بات ہوتی۔ یہ نصوص یہودیوں کے ہاں محلِ اجماع نہیں ہیں بلکہ یہودیوں میں سے صرف عبرانیوں نے یہ روایات اور نصوص گھڑی ہیں۔ اور پھر باقی یہودیوں کو ان پر ایمان رکھنے کی دعوت دینے لگے اور یہ اس لیے بھی ہے کہ عبرانی یہودی اصل میں ’’اتحاد ِسبط یہوذا ‘‘ سے چلے ہیں۔ اوریہوذا وہ انسان ہے جس کی آل ِ حضرت داؤد علیہ السلام ہیں۔ اور بنیامین کی اولاد قرابت اور نسب میں داؤد علیہ السلام سے ملتی ہے۔[1] سامری یہودی بادشاہی حضرت داؤد علیہ السلام کی اولاد میں منحصر ہونے کے بارے میں عبرانیوں کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ وہ داؤد علیہ السلام کی نبوت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع علیہ السلام کی نبوت کے علاوہ باقی تمام انبیاء کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ اس بنا پر سامری یہودی ان یہودی اسفار پر ایمان نہیں رکھتے جنہیں وہ اپنے انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ سوائے موسیٰ علیہ السلام کی تورات اور سفر قضاۃ اور سفر یوشع کے۔ دوسرا موقف: یہ موقف حضرت داؤد علیہ السلام کی شان میں قدح و طعن سے متعلق ہے،جسے امام سموال رحمہ اللہ (اسلام لانے سے پہلے ایک بہت بڑے یہودی عالم) واضح کرتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں : ’’ بے شک ان کے ہاں یہ عقیدہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے امامت کو ہارون علیہ السلام کی اولاد (جنہیں ہارونیین کہتے ہیں ) میں خاص کردی تھی۔ جب طالوت بادشاہ بنا تو اس پر ہارونیوں کو مسخر کرنا بہت گراں رہا۔ اس نے انہیں بہت زیادہ قتل کیا، پھر حکومت داؤد علیہ السلام کے پاس چلی گئی مگر ہارونیوں کے دل میں اس حکومت کی خواہش باقی رہی جو ان کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی۔اوریہ (عزرا) ایرانی بادشاہ کا خادم اور اس کے ہاں بڑے مقام و نصیب والا تھا۔اس نے ان کے لیے بیت المقدس تعمیر کیا ؛ اور اپنے ہاتھوں سے تورات لکھی جب کہ وہ ہارونی تھا، اس لیے اسے یہ بات نا پسند تھی کہ دوسری حکومت میں کوئی داؤدی ان پر حاکم بن جائے۔ اس وجہ سے اس نے تورات میں دو فصلیں زیادہ کیں، جن میں حضرت داؤد علیہ السلام کے نسب میں طعن تھا۔ ( یہ دو فصلیں ) ان میں سے ایک حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹیوں کا قصہ ہے۔ اور دوسری
[1] فصل الخطاب ص ۲۹- ۳۰۔ [2] سفر صموئیل دوم ، اصحاح ۱۱،فقرات ۴-۶؛ اوراصحاح ۱۳ ، فقرات ۱-۲۲۔