کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 358
علماء رافضہ کے ہاں تحریف کی روایات نوری طبرسی نے اپنی کتاب ’’ فصل الخطاب ‘‘کی فصل نمبر گیارہ ؛باب اول(میں یہ روایات نقل کی ہیں )،جس کو اس نے عنوان دیا ہے : (( الأخبار الکثیرۃ المعتبرہ الصریحۃ في وقوع السقط ودخول النقصان في الموجود من القرآن۔)) ’’ موجودہ قرآن میں سقط کے واقع ہونے، اور نقصان کے داخل ہونے کے بارے میں بہت ساری معتبر اور صریح اخبار۔‘‘ اور اسی باب کی بارہویں فصل میں، جس کو اس نے عنوان دیا ہے : ’’ قرآن کے بعض کلمات، اور آیات اور سورتوں میں تغییر واقع ہونے پر دلالت کرنے والے بعض وارد مخصوص اخبار۔‘‘ صرف ان دو فصلوں میں قرآن میں تحریف واقع ہونے کی روایات بہت بڑی تعداد میں جمع کی ہیں، جن کی (۱۶۰۲ ) بنتی ہے۔ جو روایات ان سے پہلی دس فصلوں میں اور مقدمہ میں جمع کی ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اور پھر اپنی جمع کردہ روایات کی قلت پر عذر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’قلت ِساماں کے ساتھ ہم یہاں پر صرف وہ روایات جمع کررہے ہیں جن سے ہمارا دعویٰ ثابت ہوجائے۔‘‘[1] اور پھر ان روایات کی توثیق کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’اور جان لیجیے کہ یہ اخبار ان معتبر کتابوں میں منقول ہیں جن پر ہمارے اصحاب کا احکامِ شریعت اور آثارِ نبویہ ثابت کرنے میں اعتماد ہے۔‘‘[2] تحریف کے متعلق یہ وہ روایات ہیں جو نوری طبرسی نے قلت ِ سامان کے باوجود اپنی کتاب میں نقل کی ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ روایات ان کے علماء کے ہاں ثقہ ہیں، جیسا کہ طبرسی نے ذکر کیا ہے ؛ اور کئی ایک مشہور رافضی علماء نے ان روایات کے مشہور ہونے کا ؛ بلکہ متواتر ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ مفید نے کہا ہے : ’’ ائمہ ہدایت آلِ
[1] تحفۃ عوام مقبول ص: ۱؛ ۲۔ [2] تحفۃ عوام مقبول ص: ۸۔ [3] تحفۃ عوام مقبول ص: ۱؛ ۲۔ [4] تصحیف کتابین ص: ۱۸؛ احسان الٰہی ظہیر:الرد علی الدکتور علي عبد الواحد، فی کتابہ: ’’بین الشیعۃ و أہل السنۃ۔‘‘ ص: ۹۳۔