کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 357
۴۔ علامہ فقیہ، آیت اللہ العظمی الحاج السیدمحسن الحکیم الطباطبائی (نجف اشرف ) [1]
اور اس کتاب کی تقریظ ایک ایسے آدمی نے لکھی ہے جس پر یہ لوگ ثقۃ الاسلام کے لقب کا اطلاق کرتے ہیں،یعنی الحاج محمد بشیر انصاری۔[2]
اس کتاب میں تقریبًا دو صفحات پر عربی نص ہے۔ یہ ایک دعا ہے، جسے وہ ’’قریش کے دو بتوں کی دعا ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ (دو بتوں سے مراد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو لیتے ہیں )۔اس دعا میں حضراتِ شیخین کریمین پر وہ سب و شتم اور گالم گلوچ ہے جس کا الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ میں اس دعا سے صرف اتنا ہی یہاں پر ذکر کروں گا جو موضع شاہد ہے،(یعنی جہاں ہمارے مؤقف کی دلیل موجود ہے۔ وہ عبارت یہ ہے:
(( بسم اللّٰه الرحمن الرحیم۔ اللّٰهم العن صنمی قریش ؛ وجبتیہما، وطاغوتیہما ؛ و إفکیہما، وابنتیہما ؛ اللذین خالفا أمرک، وأنکرا وحیک، وعصیا رسولک، وقلبا دینک، وحرفا کتابک۔))
’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اے اللہ ! قریش کے دونوں بتوں پر لعنت کر، اوران کے سر کش شیطانوں پر، اور طاغوتوں پر ؛ ان دونوں بہتان گھڑنے والوں پر،اور ان دونوں کی بیٹیوں پر؛ وہ دو جنہوں نے تیرے حکم کی مخالف کی؛ اور تیری وحی کا انکار کیا، اورتیرے رسول کی نافرمانی کی؛ اور تیرے دین کو جن دونوں نے بدل ڈالا،اور جن دونوں نے تیرے قرآن میں تحریف کی۔‘‘[3]
ان کے معاصر علماء کی کتابوں سے نصوص ذکر کرنے کے بعد ہمارے لیے مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے :
یہ کہ آج کل کے معاصر شیعہ علماء جن کی ترجمانی ان سابقہ لوگوں سے ہوتی ہے جن کا ذکر ابھی گزر چکا ؛ یہ سارے کے سارے قرآن کے محرف ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ صحابہ کرام نے اس سے بہت ساری وہ آیات حذف کردیں جو اہل بیت کے فضائل پر دلالت کرتی تھیں، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسند ِ خلافت پر متمکن ہوجائیں۔
باقی رہے وہ علماء جو آج کل عدم ِ تحریف کے عقیدہ کی صراحت کرتے ہیں ؛ یہ محض تقیہ ہے جسے وہ اپنے لیے ڈھال بناتے ہیں، اس لیے کہ اگروہ کھل کر اس عقیدہ کا اظہار کریں تو انہیں اس خبیث عقیدہ کی وجہ سے بہت ہی خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔ اور اس کی صراحت ہندوستان کے ایک شیعہ عالم نے کی ہے،وہ کہتاہے :
’’بے شک وہ شیعہ علماء جو تحریف ِ قرآن کے عقیدہ کا انکار کرتے ہیں ؛ اس پر صرف تقیہ نے ان کو آمادہ کیا ہے۔‘‘[4]
[1] کشف الإسرار ترجمہ محمد أحمد خطیب ص : ۱۲۱۔
[2] تحریر الوسیلۃ ۱/ ۱۳۹۔
[3] الخصال : للصدوق ص:۱۷۵۔