کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 356
امامت کے اثبات میں ہیں۔ تو پھر کیونکر اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ اپنے قرآن میں اس اصول کی طرف اشارہ نہیں کیا؛تاکہ اس اہم ترین مسئلہ میں جھگڑا نہ پیداہوتا۔‘‘[1]
نیز خمینی نے اپنے کتاب میں تحریر الوسیلہ میں یہ لکھا ہے :
’’اور مسجد کو ویران کرنا (غیر آبادچھوڑ دینا ) مکروہ ہے۔ اور یہ بھی روایات میں وارد ہوا ہے کہ مسجد ان تین چیزوں میں سے ایک ہے جو اللہ کی بارگاہ میں شکایت کریں گے۔‘‘[2]
ان کے معتمد مصادر کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تین چیزیں کون سی ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں شکایت کریں گے، اور ان کی طرف خمینی نے اشارہ کیا ہے؛ وہ کہتا ہے: کتاب الخصال میں ہے:
’’قیامت کے روز تین آئیں گے : قرآن، مسجد اور عترت ( اولاد) قرآن کہے گا : مجھے جلا ڈالا، اور مجھے پھاڑ ڈالا …‘‘[3]
قرآن کے بارے میں خمینی کا یہ عقیدہ ہے کہ بے شک صحابہ نے قرآن میں تحریف کی، اور اس سے حضرت علی بن ابی طالب کا نام حذف کر ڈالا جو کئی ایک مواقع پر اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اس کا ہدف حضرت علی کا حق غصب کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسند ِ خلافت پر متمکن ہونا تھا۔
یہی عقیدہ اس کے اسلاف رافضی علماء کا بھی تھا۔تو اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہے کہ آج کل کے رافضیوں اور خمینی کا یہی عقیدہ ہوجو ان کے اسلاف کا تھا۔ آج کے رافضی علماء کا وہی عقیدہ ہے جو ان کے سابقہ لوگوں کا ہے۔اس لیے کہ معاصرین نے علوم اپنے اسلاف کی کتابوں سے لیے ہیں جن میں اس فاسد عقیدہ پر رافضی علماء کے اجماع کی صراحت ہے۔ بلکہ یقینی طور پر عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کو ان کے اس فاسد عقیدہ کی خبر نہ ہوئی۔
آج کل کے رافضی علماء کا یہ دعویٰ کرنا کہ انہوں نے یہ عقیدہ چھوڑ دیا ہے[ایک خالص جھوٹ اور تگڑا تازہ تقیہ ہے] بلکہ ان کے علماء کا آج بھی اس خبیث عقیدہ پر اجماع ہے۔معاصرین رافضی علماء کے تحریف القرآن کے عقیدہ پر اجماع کی دلیل ان کی کتاب ’’ تحفۃ عوام مقبول‘‘ ہے ؛ یہ کتاب اردو زبان میں طبع شدہ ہے۔ جس کی تصدیق ان کے کئی چوٹی کے مشہور معاصر علماء نے کی ہے۔ جن کے نام اس کتاب کے پہلے صفحہ پر موجود ہیں ؛ان میں :
۱۔ علامہ فقیہ، آیت اللہ العظمی الحاج السید محمود الحسینی (نجف اشرف )
۲۔ علامہ فقیہ، آیت اللہ العظمی الحاج السید ابو القاسم الخوئی (نجف اشرف )
۳۔ علامہ فقیہ، آیت اللہ العظمی الحاج السید محمد کاظم شریعت داری (قم )
[1] اجوبۃ مسائل جار اللّٰه ص:۳۳؛۳۴۔ اعیان الشیعۃ ۱/ ۴۱۔
[2] کشف الإسرار ترجمہ محمد أحمد خطیب ص : ۱۳۱۔