کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 355
آئے ہیں، تحریف قرآن کے متعلق ان کا عقیدہ بھی وہی اپنے اسلاف کا عقیدہ ہے مگر ان میں اتنی جراء ت نہیں تھی کہ یہ لوگ کھل کر اپنے عقیدہ کا اظہار کرسکیں۔ خاص کر جب سے نوری طبرسی نے ۱۲۹۲ھ میں اپنی کتاب ’’ فصل الخطاب ‘‘ تالیف کی؛ جس نے عام مسلمانوں کے سامنے رافضیوں کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ جس کی وجہ سے ان پر ہر طرف سے طعن و تشینع کی بھر مار ہوگئی۔ اب ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ گری نہ رہی کہ وہ اپنے اس عقیدہ کو تقیہ کے پردہ میں چھپا دیں۔ اور اپنے اس عقیدہ کا انکار کرنے لگے،اور کتابیں لکھ کر اہل ِسنت کے درمیان نشر کیں جس میں ان کے اس عقیدہ کا انکار تھا، بلکہ اپنے اس اجماع کا دعویٰ کرنے لگے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی اور یہ کہ جس نے ان سے تحریف قرآن کا عقیدہ نقل کیا ہے وہ ان کے مذہب سے جاہل ہے، اوراس نے ان پر بہتان گھڑا ہے۔‘‘[1]
یہ لوگ اپنے اس عقیدہ کو چھپانے کی جتنی بھی کوششیں کر لیں، اور اپنے عقیدہ کے خلاف ظاہر کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کریں ؛ مگر ان کی کتابوں میں وہ روایات موجود رہیں گی جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے نفاق، مکر اور دھوکا بازی کو ظاہر کرتے رہیں گے۔
آپ کے سامنے ان کی کتابوں میں نقل کردہ بعض وہ روایات پیش کی جارہی ہیں جو ان کے تحریف القرآن کے عقیدہ پر دلالت کرتی ہیں :
ان کا امام مقدس،اس زمانے میں جس کے کسی حکم کی مخالفت نہیں کی جاتی، امام المعصوم کا نائب آیت اللہ الخمینی اپنی فارسی زبان کی کتاب: ’’ کشف الإسرار ‘‘ میں ؛ یہ وہ کتاب ہے جس میں خمینی نے اپنے عقائد بیان کیے ہیں ؛(اس میں ) عقیدہ تحریف القرآن اور صحابہ کے متعلق بیان کرتے ہوئے بغیر کسی تقیہ کے صراحت کے ساتھ کہتا ہے :
’’اگر بات صرف مسئلہ امامت کی ہو ؛ وہ تو قرآن سے ثابت ہوچکا ہے۔ بے شک وہ لوگ جن کا قرآن اور اسلام سے مقصود دنیاوی اغراض اور حکومت کے سوا کچھ بھی نہیں ؛ وہ قرآن کو اپنی ناکارہ خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وسیلہ کے طور پر اختیار کرتے تھے۔ اوروہ ان آیات کو قرآن کے صفحات سے حذف کرتے،اور جہان والوں کی نظروں سے قرآن کو ہمیشہ کے لیے گراتے ہیں۔ اوراس طرح مسلمانوں اور قرآن پر (ہمیشہ کے لیے) عیب لگاتے ہیں۔ اوران عیوب کو قرآن میں ثابت کرتے ہیں جو مسلمانوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں سے لیے ہیں۔‘‘[2]
خمینی قرآن کی صحت کے بارے میں شک ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتاہے:
’’اگرچہ امامت اصول دین میں سے چوتھی اصل تھی؛ اور مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن کی اکثر آیات
[1] مذکورہ کلام کاخلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن میں عدم ِ تحریف کا قول مخالفین کو رام کرنے کے لیے اختیار کیا ہے ،ورنہ وہ دل سے اس کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ،جس پر ان کی کتابوں میں جمع کردہ روایات گواہ ہیں۔
[2] فصل الخطاب ص ۳۴۔