کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 354
ان کے مذاہب کی مدح بیان ہوئی ہے۔ یہ تو غرائب کی منزلت پر ہے۔ یہ تو چل چلاؤ کا قصہ ہی لگتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ مذکورہ قول ان کی طرف سے بھی اسی طور پر ہو۔‘‘[1] اورجوچیز اس کتاب میں تقیہ کیے جانے پر دلالت کرتی ہے وہ ان کے شیخ الجلیل علی بن طاؤوس کی ’’سعد السعود‘‘میں ذکر کردہ روایت ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ہم وہ روایت ذکر کرتے ہیں جو میرے دادا ابو جعفر الطوسی نے کتاب ’’التبیان ‘‘ میں حکایت کی ہے۔ تقیہ نے ان کو اس میانہ روی پرابھارا ہے کہ وہ مکی اور مدنی سورتوں اور ان اوقات میں اختلاف پر اکتفا کریں۔ وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں جو کچھ انہوں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ؛ اور جوکو ئی ان کے اس مقام پر غور و فکر کرے گا اس پر یہ بات مخفی نہیں رہے گی۔‘‘[2] اس سے اب کو ئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ ان چاروں نے عدم ِ تحریف کا قول صرف تقیہ کی وجہ سے اور اہل ِ سنت کو دھوکا دینے کے لیے اختیار کیا ہے۔ اور آج کے رافضہ انہی کی راہ پر چلتے ہیں کہ قرآن میں عدم ِ تحریف کے قول کا اظہار کرتے ہیں ؛ اور اپنے اصلی عقیدہ کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ قرآن کے متعلق معاصر علماء رافضہ کا عقیدہ: میں اس سے پہلے پہلی صدی ہجری سے لے کر تیرہویں صدی ہجری تک کے رافضی علماء کا تحریف ِ قرآن کے متعلق عقیدہ ذکر کیا۔ اور ان تمام کا نظریہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے اس قرآن میں تحریف کردی تھی۔ اور اس موجودہ قرآن میں تغییر و تحریف اور تبدیلی اور تقدیم و تاخیر واقع ہوئی ہے۔ اور یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ ترتیب کے مطابق نہیں ہے۔ اور یہ بھی بیان کر چکا ہوں کہ گزشتہ تیرہ صدیوں میں سوائے چار افراد اس عقیدہ کا مخالف کوئی بھی نہیں ملتا؛ جن کا ذکر پہلے گزر چکاہے۔ اور ان کا یہ اختلاف تقیہ اور نفاق کی بنیاد پر تھا۔ وگرنہ وہ بھی ان لوگوں کے اسی عقیدہ پر ہیں۔ اورمیں نے ان میں سے ہر ایک کی دلیلیں ان کے اہم مصادر سے نقل کی ہیں۔ اب اس کے بعد شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ شروع سے لے کرآج تک کے رافضی علماء کا عقیدہ قرآن میں تحریف واقع ہونے کے متعلق ہی رہا ہے۔ اب میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ اس عرصہ (یعنی پہلی صدی سے چودھویں صدی تک) کے بعد جو رافضی علماء
[1] الأنوار النعمانیۃ ۲/ ۳۵۸؛ ۳۵۹۔