کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 352
’’اگر ہم تم کو (وفات دے کر) اٹھا لیں تو ان لوگوں سے ہم علی کے ذریعہ انتقام لے کر رہیں گے یا (تمہاری زندگی ہی میں ) تمہیں وہ (عذاب) دکھا دیں جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ہم ان پر قابو رکھتے ہیں۔‘‘(حضرت علی کا نام آیت میں داخل کردیا) اس کے بعد پھر یہ آیت نازل ہوئی : ﴿قُل رَّبِّ اِمَّا تُرِیَنِّیْ مَا یُوعَدُونَ o رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِیْ فِی الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ o وَاِنَّا عَلَی أَن نُّرِیَکَ مَا نَعِدُہُمْ لَقَادِرُوْنَ o ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ﴾ (المؤمنون: ۹۳۔۹۶) ’’ کہہ دیجیے اے پروردگار! جس عذاب کا ان (کفار) سے وعدہ ہو رہا ہے اگر تو میری زندگی میں ان پر نازل کر کے مجھے بھی دکھا دے تو اے پروردگار! مجھے (اس سے محفوظ رکھئے) اور ان ظالموں میں شمار نہ کیجئے۔ اوربیشک ہم جو وعدہ ان سے کر رہے ہیں ہم تم کو دکھا کر ان پر نازل کرنے پر قادر ہیں۔ اور بُری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو اور جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے۔‘‘ اور پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: (فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْ أُوحِیَ إِلَیْْکَ من أمر علی بن أبي طالب اِنَّکَ عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o وإن علیاً لعَلم للساعۃ ولک و لقومک ولَسَوْفَ تُسْأَلُونَ عن محبۃ علي بن ابي طالب ) [1] ’’پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے حضرت علی کے معاملہ کے بارے میں اس کو مضبوط پکڑے رہو بیشک تم سیدھے رستے پر ہو اوربے شک علی قیامت کی نشانی ہے آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے اورتم سے عنقریب پوچھ گچھ ہوگی محبت علی کے بارے میں۔‘‘[2] اور طبرسی اپنی کتاب مجمع البیان میں کہتا ہے،یہ وہ کتاب ہے جس میں اس نے قرآن میں عدم ِ تحریف کا کہا ہے : ’’ عمر بن خطاب اور عبد اللہ بن زبیر نے یوں پڑھا ہے : (صراط من أنعمت علیہم) [3] ’’راہ اس انسان کی جس پر تونے انعام کیا۔‘‘ یہ قراء ت اہل بیت سے بھی منقول ہے، نیز وہ کہتا ہے : حضرت عمر بن خطاب کی قراء ت یوں ہے: (غیر الضالین) [4]
[1] الخصال : ص: ۱۷۵۔صحیح آیت اس طرح ہے:﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃً وَلَا جُنَاحَ عَلَیْْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْْتُم بِہِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾ (النساء: ۲۴) ’’تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو اُن کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کر دو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کر لو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ [2] من لا یحضرہ الفقیہ ۳/ ۲۹۹۔ [3] جب کہ درست آیت اس طرح ہے:﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوْحاً وَآلَ إِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ﴾(آل عمران: ۳۳) ’’ بے شک اللہ نے آدم اور نوح کو اور خاندانِ ابراہیم اور خاندانِ عمرا ن کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فر مایا تھا۔‘‘ [4] أمالي الطوسي ص: ۳۰۶۔ جب کہ درست آیتیں اس طرح ہیں :﴿فَإِمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْہُم مُّنتَقِمُوْنَ o أَوْ نُرِیَنَّکَ الَّذِیْ وَعَدْنَاہُمْ فَاِنَّا عَلَیْْہِم مُّقْتَدِرُوْنَ﴾ الزخرف: ۴۱۔۴۲) ’’اگر ہم تم کو (وفات دے کر) اٹھا لیں تو ان لوگوں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے۔ یا (تمہاری زندگی ہی میں ) تمہیں وہ (عذاب) دکھا دیں جن کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ہم ان پر قابو رکھتے ہیں۔‘‘