کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 350
الخطاب ‘‘ میں تحریف قرآن کے متعلق رافضہ کے اقوال میں سے پہلا قول نقل کرنے کے بعد یہ قول نقل کیا ہے ؛ اس سے پہلے ہم وہ نصوص بیان کر چکے ہیں۔
وہ کہتا ہے : ’’دوسرا قول اس میں نقص اور تغییر نہ واقع ہونے کا ہے اور یہ کہ جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا،وہ اب بھی لوگو ں کے ہاتھوں میں دو پہلوؤں کے درمیان موجود ہے۔ اورصدوق نے بھی اپنے عقائد میں اسی قول کو اختیار کیا ہے؛ اور سید مرتضیٰ اور شیخ الطائفہ نے ’’التبیان‘‘ میں یہی مذہب اپنایا ہے۔اور قدماء میں کوئی ان کا موافق معلوم نہیں ہوا ہے ‘‘[1]
پھر ان کے بعد ابو علی طبرسی (م۵۴۸ھ ) آیا ؛ اور اس نے ان تینوں کے قول کی موافقت کی۔ نوری طبرسی کہتا ہے :
’’ اور جن لوگوں نے اس قول کی صراحت کی ہے ان میں ایک شیخ ابو علی طبرسی نے (مجمع البیان) میں (یہ قول اپنایا ہے )۔ پھر وہ(نوری ) کہتا ہے : اور ان کے طبقہ تک کوئی واضح اختلاف معلوم نہیں ہوا سوائے ان چار لوگوں کے۔‘‘[2]
علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ پھر دوسرے دور میں، یعنی چوتھی صدی ہجری کے نصف سے لیکر چھٹی صدی ہجری تک ان دو صدیوں میں شیعہ کے ان چار افراد سے پہلی بار یہ عقیدہ ظاہر ہوا، ان کا کوئی پانچواں نہیں، جیسا کہ ہم نے ان کی تفاسیر احادیث اور عقائد کی کتابوں کی چھان بین کی ہے۔ اور یہی بات نوری طبرسی نے کہی ہے۔ ‘‘[3]
ہم دیکھتے ہیں کہ علماء رافضہ کی اس کثرت کے باوجود ان چار کے علاوہ کوئی ایک ایسا نہیں ہے جس نے تحریف قرآن کا نہ کہا ہو۔ اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان چاروں نے اپنے ائمہ سے ایک بھی دلیل اپنے ان مخالف شیعہ علماء کے رد پر نہیں ذکر کی جنہوں نے تحریف قرآن کے بارے میں سینکڑوں جھوٹی روایات گھڑ کر اپنے ائمہ سے نقل کی ہیں بلکہ معاملہ یہاں پر بھی الٹ ہے،انہوں نے اپنے ائمہ سے چند ایسی روایات اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں جو تحریف پر دلالت کرتی ہیں، مگر انہوں نے ان روایات پر تنقید نہیں کی۔
(تحریف کی روایات):
ان روایات میں سے وہ روایت جسے صدوق نے ’’کتاب الخصال‘‘ میں روایت کیا ہے، سیّدنا جابر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
’’قیامت کے روز تین آئیں گے،وہ اللہ کی بارگاہ میں شکایت کررہے ہوں گے : قرآن، مسجد اور عترت (اولاد) قرآن کہے گا: ’’مجھے جلا ڈالا، اور مجھے پھاڑ ڈالا۔‘‘ مسجد کہے گی : ’’مجھے چھوڑ دیا، اور مجھے ضائع کردیا۔‘‘ اور عترت (اولاد) کہے گی: ’’ اے رب ! ہمیں قتل کیا ؛ اور ہمیں گھروں سے نکالا۔‘‘ وہ اپنے
[1] فصل الخطاب : ص ۳۲۔
[2] التبیان ۱/ ۳۔