کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 349
وہ رافضی علماء جنہوں نے تحریف نہیں کی اور اس کا سبب پہلی تین صدیاں گزریں اور رافضیوں کا اس عقیدہ پر اجماع تھا کہ قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے یہاں تک کہ ابن بابویہ قمی آیا، جسے ان لوگوں کے ہاں ’’ صدوق ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ؛ جس کا انتقال ۳۸۱ ہجری میں ہوا۔ یہ رافضیوں میں پہلا آدمی ہے جس نے عدم ِ تحریف کا کہا ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں جو کہ’’اعتقادات الصدوق‘‘ کے نام سے مشہور ہے، کہا ہے: ’’ ہمارا اعتقاد قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ؛ وہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر نازل کیا ہے، اوروہ جو مابین الدفتین موجود ہے ؛ اور جواب لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ؛ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔[ الحمدسے لیکر] سورۃ الناس تک جس کی سورتوں کی تعداد ۱۱۴ہے اور جس نے ہماری طرف منسوب کیا کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ : ’’قرآن اس سے زیادہ ہے وہ انسان جھوٹا ہے۔‘‘ طبرسی نے اس کے قول ’’ہمارا اعتقاد ‘‘ پر یہ کہہ کر تبصرہ کیا ہے :’ ’اور اس کا یہ کہنا : ’’ہمارا اعتقاد ‘‘ اور یہ کہنا کہ ’’ ہماری طرف منسوب کیا ‘‘ اگرچہ یہ امامیہ کا اعتقاد اور ان کی طرف منسوب ہے،بس اتنی بات ہے کہ اس نے اپنی اس کتاب میں وہ کچھ ذکر کیا ہے، جو اس کے علاوہ کسی نے نہیں کہا۔ یا اس کے کہنے والے بہت ہی کم ہیں۔ اس نے امالی میں امامیہ کے دین میں (ان لوگوں کو بھی) شمار کیا ہے[جو تحریف قرآن کے قائل نہیں ]۔ مفید نے اپنی شرح میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے؛ اوراس پر اتنی تنقید کی ہے جس پر کسی اضافے کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘[1] رافضیوں میں صدوق ہی اپنے اس قول میں منفر د رہا، یہاں تک کہ مرتضیٰ (م ۴۳۶ھ ) آیا، اور اس نے صدوق کے قول کی موافقت کی۔ اور ابو جعفر طوسی(م ۴۶۰ھ)، مرتضیٰ کے شاگرد نے بھی ان دونوں کی موافقت کی۔شیخ طوسی نے کہا ہے: ’’یہ کہنا کہ اس میں زیادہ ہوا ہے یا کم ہوا ہے ؛ یہ ایسی بات ہے جس کا [عقیدہ رکھنا]قرآن کے متعلق مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں اضافہ بالاجماع باطل ہے۔ اورظاہر ہے کہ یہ مسلمانوں کا مذہب اس میں کمی کے بھی [حفظ قرآن کے عقیدہ کے ]خلاف ہے۔ ’’یہ بات قبولیت کے لائق اور ہمارے مذہب میں صحیح ہے ‘‘کہہ کر مرتضیٰ نے اس عقیدہ کی نصرت ہے۔‘‘[2] قدیم علماء رافضہ میں سے یہی تین افراد ایسے ہیں جنہوں نے قرآن میں تحریف کا نہیں کہا۔ اور ان کے دور تک کوئی ان کے قول کا موافق اور حامی نہیں ملا، جیسا کہ ان کے علماء نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔ نوری طبرسی نے ’’فصل
[1] فصل الخطاب : ص ۲۵- ۲۶۔ [2] فصل الخطاب : ص ۳۵۔ [3] فصل الخطاب : ص ۳۵۔