کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 348
ایک شیخ ِ اعظم محمد بن محمد النعمان المفید ہے۔
اور انہی میں سے شیخ المتکلمین اور متقدم النو بختی ؛ابو سہل اسماعیل بن علی بن اسحاق بن ابی سہل بن نو بختی، کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، جس کی کتابوں میں سے ایک کتاب: ’’التنبیہ فی الامامۃ‘‘ بھی ہے۔ ’’الصراط المستقیم‘‘ کے مصنف نے اس سے نقل کیا ہے۔ اور اس کا بھانجاشیخ، متکلم، فلسفی؛ ابو محمد حسن بن موسیٰ کئی کتابوں کا مصنف؛(بھی ان ہی لوگوں میں سے ہے)۔ اس کی ایک کتاب: ’’الفرق والدیانات‘‘ ہے۔
نیز شیخ جلیل ابو اسحق ابراہیم بن نو بختی ؛کتاب ’’ الیاقوت ‘‘ کا مصنف بھی ہے۔ ’’ الیاقوت ‘‘ کی شرح علامہ [الحلی]نے کی ہے، اوراس شرح کے شروع میں ان الفاظ میں مصنف کتاب کی تعریف کی ہے: ’’ شیخنا الأقدم، و إمامنا الاعظم۔‘‘
اور ان میں سے ایک اسحق الکاتب بھی ہے جس نے ’’الحجہ ‘‘ کو دیکھاتھا(مراداما غائب ہے)۔اور اس طائفہ کے شیخ، بسااوقات جس کی عصمت کے بارے میں بھی کہا جاتاہے، ابو القاسم حسین بن روح بن ابی البحر نو بختی، شیعہ اور حجت علیہ السلام کے درمیان تیسرا سفیر، بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اور ان لوگوں میں سے جن کا تحریف القرآن کا عقیدہ ظاہر ہوتا ہے،عالم و فاضل متکلم حاجب بن لیث بن سراج ہے، جیسا کہ اس نے اپنی کتاب ’’ ریاض العلماء ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
جن لوگوں نے یہ مذہب(وعقیدہ )اختیار کیاہے،ان میں سے ایک شیخ الجلیل المقدم فضل بن شاذان نے اپنی کتاب ’’ الإیضاح ‘‘ میں کئی مواقع پر اس کا اظہار کیا ہے۔
اور قدیم علماء میں سے اس مذہب کو اختیار کرنے والے محمد بن الحسن الشیبانی (یہ شیعہ عالم ہے ؛ اہل ِ سنت عالم محمد بن الحسن الشیبانی نہیں ) ’’نہج البیان عن کشف معانی القرآن ‘‘ کا مصنف بھی ہے۔‘‘[1]
باب اول: رہا پہلا باب،تو طبرسی نے اس باب کو ان دلائل کے بیان کرنے کے لیے خاص کیا ہے جن سے ان کے علماء نے قرآن میں تغییر اور نقصان واقع ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس باب میں اس نے بارہ دلیلیں ذکرکی ہیں جو اس کے خیال میں قرآن میں تحریف واقع ہونے پر شاہد ہیں۔ اور ان میں ہر ایک دلیل کے تحت اس نے ائمہ أہل بیت سے مزعوم اور من گھڑت روایات کا ایک انبار نقل کیا ہے۔[2]
باب دوم : جب کہ دوسرے باب میں طبرسی نے ان لوگوں کی دلیلیں نقل کی ہیں، جو کہتے ہیں کہ قرآن میں تغییر واقع نہیں ہوئی ؛ اور پھر ان لوگوں پر تفصیلی رد کیا ہے۔‘‘[3]