کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 347
ہونے کے بارے میں ہیں۔ یقیناً ان عنوانات کے تحت اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں گل کھلانے کی وہ جراء ت رندانہ کی ہے، جس کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔
اس وجہ سے میں طوالت سے بچتے ہوئے، پہلے دو مقدمات میں جو کچھ بیان ہوا ہے،اس سے اعراض کرتے ہوئے صرف تیسرے مقدمہ میں طبرسی نے تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنے والے اپنے جن علماء کے اسماء نقل کیے ہیں،میں بھی ان ہی کو نقل کرنے پر اکتفا کروں گا۔ اس نے کہا ہے :
تیسرا مقدمہ : ’’ قرآن میں تغییر کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہمارے علماء کے اقوال کے بیان میں۔‘‘
جان لیجیے کہ اس کے بارے ان کے کئی اقوال ہیں، جن میں سے دو زیادہ مشہور ہیں :
پہلا قول : قرآن میں تغییر اور کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ شیخ علی بن ابراہیم (کلینی کے استاذ) کا مذہب ہے ؛ اس کی تفسیر میں (ذکر کیا گیا ) ہے۔ اس نے شروع میں اس کی صراحت کی ہے، اور اپنی کتاب کو ان روایات سے بھر دیا ہے۔ اور اس قانون کی پابندی کے ساتھ کہ وہ اس کتاب میں صرف اپنے مشائخ اور ثقات سے ہی نقل کرے گا۔
اور اس کے شاگرد ثقہ الاسلام کلینی(کا بھی یہی مذہب ہے) جیسا کہ (علماء کی) ایک جماعت نے اس کی طرف منسوب کیا ہے ؛ اس لیے کہ اس نے اس معنی میں بہت ساری واضح روایات نقل کی ہیں۔
اور اسی عقیدہ پرثقہ /جلیل القدر محمد بن حسن الصفار کا مذہب اس کی کتاب ’’ بصائر الدرجات ‘‘سے معلوم ہوتا ہے۔ اور کلینی کے شاگرد محمد بن ابراہیم النعمانی کا اس کی مشہور کتاب’’الغیبۃ‘‘ میں یہی مذہب واضح ہے۔ اوریہی عقیدہ تفسیر صغیر میں بھی بیان ہوا ہے، جس میں اس نے آیات کی انواع و اقسام ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ یہ علی بن ابراہیم کی تفسیر کے مقدمہ کے درجہ پر ہے۔
نیز ثقہ و جلیل عالم شیخ سعد بن عبد اللہ قمی نے اپنی کتاب: ’’ناسخ القرآن و منسوخہ‘‘ میں اسی عقیدہ کی صراحت کی ہے۔ جیسا کہ البحار کی انیسویں جلدمیں ہے ؛ اس نے باب قائم کیا ہے ؛ جس کا عنوان ہے :
(( باب التحریف فی الآیات التي ہی خلاف ما أنزل اللّٰه عزو جل ؛ مما رواہ مشایخنا رحمۃ اللّٰه علیہم من آل محمد علیہم السلام۔))
پھر اس نے بہت سی مر سل احادیث نقل کی ہیں۔ ان میں سے بارہویں دلیل ملاحظہ کیجیے :
’’اور سید علی بن احمد الکوفی نے کتاب ’’بدع المحدثۃ‘‘ میں صراحت کی ہے۔ اور ہم پہلے اس معنی میں روایات نقل کر چکے ہیں۔‘‘ یہ اجلۃ مفسرین اور ان کے امام الشیخ الجلیل محمد بن مسعود العیاشی اور شیخ ابراہیم بن فرات الکوفی، اورنقاد ثقہ محمد بن عباس الماہیار، (ان لوگوں ) نے اپنی تفاسیر اس معنی کی صریح روایات سے بھر دی ہیں۔ اور جن لوگوں نے اس عقیدہ کی صراحت اوراس مذہب کی نصرت کی ہے ان میں سے
[1] الأنوار النعمانیۃ ۲/ ۳۶۰-۳۶۱۔