کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 345
یہ تو چند ایک مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ مجلسی نے تحریف قرآن پر بطور دلیل کے جو روایات ذکر کی ہیں وہ بہت ہی زیادہ ہیں۔[1] نعمت اللہ الجزائری (۱۱۱۲ ھ): نعمت اللہ الجزائری صحابہ پر تحریف قرآن کا الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے : ’’موضوع روایات کی کثرت پر کوئی تعجب نہیں ہے۔ سو بے شک انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین میں جو تبدیلی کر ڈالی؛ اور تحریف کردی، وہ اس سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ ان کا قرآن کو بدلنا، اور اس کے کلمات میں تحریف کرنا، اور اس سے آل ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ اور ائمہ طاہرین کی تعریف؛ اور منافقین کے فضائح (رسوائیاں )،اور ان کی برائیو ں کے ا ظہارکو حذف کرنا۔ ‘‘[2] اپنے سابقہ رافضی علماء کی طرح الجزائری کا نظریہ بھی یہ ہے کہ قرآن کو حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اورنے جمع نہیں کیا۔ اور یہ کہ صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہیں کی ؛ اور نہ ہی ان کے لیے وحی کی کتابت کی ہے؛ مگر اس سے غرض صرف یہ تھی کہ اس میں تحریف کی جائے، اور اسے بدلا جائے۔ وہ کہتاہے : ’’ یہ بات اخبار میں شہرت کو پہنچی ہوئی ہے کہ قرآن جیسے نازل ہوا ایسے کسی نے نہیں لکھا، سوائے امیر المومنین علیہ السلام کے(انہوں نے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت سے (قرآن جمع کرنے میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد چھ ماہ تک مشغول رہے۔ پھر جب ایسے جمع کرلیا، جیسے وہ نازل کیا گیا تھا؛ تو اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت سے پیچھے رہ جانے والوں کے پاس آئے اور ان سے کہا: ’’یہ اللہ کی کتاب ہے جیسے نازل کئی گئی تھی (ویسے ہی جمع کرلی ہے) تو عمر بن خطاب نے کہا : ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی تیری اور نہ ہی تیرے قرآن کی، ہمارے پاس وہ قرآن ہے جو عثمان نے جمع کیا ہے۔‘‘ علی علیہ السلام نے ان سے کہا : تم آج کے بعد اسے ہر گز نہیں دیکھ سکو گے،اور نہ ہی کوئی اور اسے دیکھ سکے گا، یہاں تک کہ میرا بیٹا مہدی علیہ السلام ظاہر ہوگا۔ اور اس قرآن میں بہت ساری چیزیں ہیں جو کہ تحریف سے خالی ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ عثمان ایک مصلحت کے تحت کاتب ِ قرآن تھے؛ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ تھی۔یہ کہ وہ قرآن کے بارے میں ان کو نہ جھٹلائیں ؛اورنہ یہ کہیں کہ : یہ اپنی طرف سے گھڑا ہوا ہے یا یہ کہ اسے روح الامین لے کر نازل نہیں ہوئے، جیسے کہ یہ بات ان کے اسلاف کہتے تھے۔ بلکہ انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔ اور ایسے ہی اپنی موت سے چھ ماہ قبل
[1] التفسیر الصافی ۱/۴۷۔ [2] یہ لوگ دوسرے سے مراد دوسرے خلیفہ جناب سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کولیتے ہیں ؛ اور گمان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ قیامت والے دن ان سے براء ت کا اظہارکریں گے۔ [3] بحار الأنوار ۲۴/ ۱۹۔ اور یہ قول: (وسیظہر یومًا)۔ یہ جملہ مجلسی نے زیادہ کیا ہے ؛ یعنی حضرت علیؓ کا مصحف ظاہر ہوگا ، اور یہ مہد ی کے زمانے میں ہوگا ، ان کے گمان کے مطابق۔ بحار الأنوار ۲۴/۱۸۶۔