کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 344
انہوں بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے اپنی کتاب الاحتجاج میں روایات جمع کی ہیں۔‘‘[1]
یہ بعض وہ امور ہیں جو مقدمہ میں بیان ہوئے ہیں۔ باقی رہی تفسیر وہ تمام کی تمام اس غلو و تحریف‘تاویل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی شان میں طعن و تشنیع سے بھری پڑی ہے۔
شاید یہ مؤلف کے اس التزام کی وجہ سے ہے کہ اس تفسیرمیں وہ اہل ِ سنت کی کوئی روایت نقل نہیں کرے گا۔ تو اس کا نام صافی ان اہل ِ سنت روایات سے صاف ہونے کی وجہ سے رکھاگیا ہے۔ یہ باتیں اس کتاب اور صاحب ِکتاب کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف چھپے ہوئے حقدکی پہچان کے لیے کافی ہے۔
محمد باقرمجلسی (۱۱۱۱ ھ):
محمد باقر مجلسی جسے وہ شیخ الاسلام کا لقب دیتے ہیں، اس نے اپنا انسائیکلو پیڈیامیں ؛ جس کا نام ہے : ’’بحار الأنوار‘‘ سینکڑوں روایات جمع کی ہیں جوقرآن میں تحریف واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
ان روایات میں سے : ابو عبد اللہ سے روایت کیا گیا ہے ؛ اس نے کہا ہے:
’’اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی اپنی کتاب میں کنایہ نہیں استعمال کیا، یہاں تک کہ فرمایا: ﴿یَا وَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیْلًا ﴾ (الفرقان: ۲۸)
’’ ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘
بے شک یہ آیت مصحف علی علیہ السلام کے بارے میں ہے ؛ (( یَا وَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ الثاني خَلِیْلًا))… ((وسیظہر یومًا))’’ ہائے شامت کاش کہ میں نے دوسرے [2]کو دوست نہ بنایا ہوتا ’’اور ایک دن وہ ظاہر ہو جائے گا۔‘‘
مجلسی ابن بطریق سے اس کی سند کے ساتھ جابر سے روایت کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کے روز تین آئیں گے : قرآن، مسجد اور عترت ( اولاد) قرآن کہے گا : مجھے جلا ڈالا، اور مجھے پھاڑ ڈالا۔ مسجد کہے گی : ’’مجھے خراب کیا، مجھے چھوڑ دیا، اور مجھے ضائع کردیا۔‘‘ اور عترت (اولاد) کہے گی: ’’ اے رب ! ہمیں قتل کیا ؛ اور ہمیں گھروں سے نکالا؛ اورعلاقہ بدر کیا۔‘‘ اوروہ ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہوئے اپنے فریق مخالف پر امڈ پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ کہے گا : یہ [ بدلہ ] میرے ذمہ ہے، اور میں اس کا زیادہ حق دار ہوں۔‘‘[3]
[1] التفسیر الصافی ۱/ ۱۵۔
[2] التفسیر الصافی ۱/۴۴۔