کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 343
نے ’’الصافی‘‘ نام کی ایک تفسیر لکھی ہے۔ وہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں یہ نام رکھنے کی علت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’اور یہ بات بہت ہی لائق تھی کہ اس کے ہر کدورت سے صاف ہونے کی وجہ سے، اور عوامی آراء، اور تھکا دینے والے حیران کن قصوں کی وجہ سے اس کا نام ’’ الصافی‘‘ رکھا جائے۔‘‘[1] اس نے اپنی اس کتاب میں بارہ مقدمات قائم کیے ہیں۔ چھٹے مقدمہ کو اس نے قرآن میں تحریف ثابت کرنے کے لیے خاص کیا ہے۔ اور اس مقدمے کا عنوان رکھا ہے : ’’ چھٹا مقدمہ ان مختصر مثالوں کے بیان میں جو جمع ِ قرآن؛ اس میں تحریف، اورکمی و بیشی اور اس میں تاویل پر مشتمل ہے۔ ‘‘ اور پھر تحریف قرآن پر جن روایات سے استدلال کیا ہے ؛ انہیں ان کے ہاں ثقہ اور معتمد مصادر سے ذکر کرنے کے بعد؛ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتاہے: ’’ ان روایات اور ان کے علاوہ دوسری روایات سے جو اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ سے روایت کی گئی ہیں ؛ درج ذیل فائدہ حاصل ہوتا ہے: ’’بے شک وہ قرآن جو ہمارے درمیان موجود ہے، وہ اس طرح پورا نہیں ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا بلکہ اس میں کچھ ایسا بھی (مواد ) ہے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کے خلاف ہے۔ اوراس میں کچھ تبدیل کیا ہوا محرف بھی ہے۔ اوراس میں سے بہت ساری چیزیں حذف بھی کردی گئی ہیں ؛ ان میں سے حضرت علی علیہ السلام کا نام بھی ہے؛ اسے بہت سارے مواقع سے حذف کیا گیا ہے۔ اور ان میں ایک لفظ آل ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے ؛ اسے کئی بار حذف کیا گیاہے۔ اور ان میں سے بعض جگہوں پر منافقین کے نام بھی تھے؛(جو حذف کردیے گئے)؛ اور اس میں سے کچھ ان کے علاوہ بھی چیزیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ترتیب کے مطابق تھیں۔‘‘[2] پھر اس کے بعد وہ کہتا ہے قرآن میں تحریف کا عقیدہ کبارائمہ رافضیہ کا عقیدہ ہے ؛وہ کہتا ہے: ’’ اور ہمارے مشائخ رضی اللہ عنہم کا اعتقاد اس معاملہ میں ثقہ اسلام محمد بن یعقوب الکلینی طاب ثراہ (کے کلام سے) صاف ظاہر ہے کہ آپ قرآن میں تحریف، کمی و زیادتی کا عقیدہ رکھتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے اس معنی میں اپنی کتاب الکافی میں روایات نقل کی ہیں۔ اور ان روایات میں بالکل کوئی قدح نہیں کی حالانکہ اس کتاب کے شروع میں آپ نے کہا ہے: اس کتاب میں میں نے وہی روایت نقل کی جسے ثقہ مانتا ہوں۔ اور ایسے ہی ان کے استاذ علی بن ابراہیم القمی ( رضی اللہ عنہ ) بے شک ان کی تفسیر ان روایات سے بھری ہوئی ہے، بلکہ انہوں نے اس مسئلہ میں بہت غلو کیا ہے۔ اور ایسے ہی شیخ احمد بن ابو طالب طبرسی رضی اللہ عنہ
[1] الاحتجاج ۲۴۹۔ [2] الاحتجاج ۲۵۳۔ [3] الاحتجاج ۲۵۴۔ [4] الاحتجاج ۲۴۹۔