کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 342
طبرسی یہ گمان کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جرائم کے قصے بیان کیے تو کھل کر مجرمین کے نام بھی لیے، لیکن صحابہ نے وہ نام مٹادیے، اور قصے صرف کنایہ بن کر رہ گئے۔ وہ کہتا: ’’بے شک منافقین میں سے بڑے گناہوں کے مرتکب افراد کے ناموں سے جو کنایہ قرآن میں ہے؛یہ اللہ تعالیٰ کا فعل نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو اس میں تغیر [تحریف ]کرنے والے اور اس کو بدلنے والے ہیں، جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اوردنیاکو دین سے علیحدہ کردیا۔‘‘[1] طبرسی نے الفاظ قرآن میں تحریف پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی میں اس کے معانی کو بھی بدل ڈالا ہے۔ اس کا یہی عقیدہ ہے کہ قرآن میں ایسے رموز ہیں جن میں منافقین کی رسوائیاں ہیں۔ ان رموز کو ائمہ اہل بیت کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اگر صحابہ ان رموز کو جان لیتے تو انہیں بھی قرآن سے ایسے ہی نکال دیتے جیسے باقی سب کچھ نکال دیا ہے۔[2] یہ طبرسی کا قرآن کے بارے میں عقیدہ ہے جس کا اس نے اظہار کیا ہے۔ورنہ اس سے کہیں بڑھ کربہت کچھ اس کے دل میں پوشیدہ ہے۔ اور اس سارے کا اصل نفاق اور وہ دھوکے بازی ومکاری ہے جسے وہ ’’تقیہ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے : ’’ اگر میں اس تمام کی شرح کروں، جو اس سے ساقط کیا گیا ہے، یا جو بدلا گیا ہے، یا جس میں تحریف کی گئی ہے ؛[توبات بہت لمبی ہوجائے گی]۔‘‘یہ مناقب اولیاء ؛ اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں میں سے اس چیز کا اظہار ہواہے جسے تقیہ نے خفیہ رکھا تھا۔‘‘[3] ایک دوسری جگہ پر یہ رافضی [اپنے ماننے والوں کو ]اپنے خبیث عقیدہ کا اظہار کرنے سے ڈراتے ہوئے کہتا ہے : ’’عقیدۂ تقیہ کے ہوتے ہوئے یہ روا نہیں ہے کہ قرآن کو بدلنے والوں ؛ یا اس میں زیادتی کرنے والوں کے نام لیے جائیں ؛ یعنی جو کچھ انہوں نے اپنی طرف سے کتاب میں درج کیا ہے، اس لیے کہ اس سے اہل تعطیل؛ اور اہل کفر، وہ ملتیں جو ہمارے قبلہ سے منحرف ہوچکی ہیں ؛ کی حجت قوی ہوتی ہے۔ اور اس ظاہری علم کا ابطال ہے جس کے سامنے امارت کی اصطلاح کی وجہ سے مخالفین و موافقین عاجز آگئے ہیں ؛اوروہ ان پر راضی ہیں۔ اس لیے کہ اہل باطل قدیم اور جدید ہر دور میں اہل حق سے تعداد میں زیادہ رہے ہیں۔‘‘[4] فیض کاشانی(۱۰۹۱ھ ): جن لوگوں نے قرآن میں تحریف ہونے کی تصریح کی ہے، ان میں سے ایک ان کا بڑا مفسر فیض کاشانی ہے جس
[1] تفسیر العیاشی ۱/ ۱۸۰۔ [2] اوائل المقالات ۴۸-۴۹۔ [3] الاحتجاج ۱۵۶۔