کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 341
اسی تفسیر میں ابو جعفر سے روایت ہے: ’’بے شک قرآن سے بہت ساری آیات نکال دی گئی ہیں۔ اور اس میں صرف کچھ حروف زیادہ کیے گئے ہیں جن میں لکھنے والوں نے غلطی کی ہے یا کچھ لوگوں کو ان کا وہم ہوا ہے۔‘‘[1] یہ روایت سب سے خطرناک اور سب سے بری ہے اس لیے کہ رافضہ کی اکثر روایات فقط اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن میں کمی کی گئی ہے، جیسا کہ خود ان روایات سے واضح ہوتا ہے۔ مفید(۴۱۳ھ ) : رہا ان کا شیخ ’’مفید‘‘جس کا شمار اس مذہب کے مؤسسین میں ہوتا ہے، اس نے قرآن میں تحریف پر؛ اور اس عقیدہ میں باقی سارے اسلامی فرقوں سے اختلاف پر اجماع نقل کیا ہے۔ ‘‘ اس نے اوائل المقالات میں کہا ہے : ’’ اور امامیہ کا بہت سارے مُردوں کا قیامت سے پہلے اس دنیا میں لوٹ کر آنے پر اتفاق ہے۔ اگرچہ ان کے درمیان ’’رجعت کے معنی ‘‘ میں اختلاف ہے۔ ایسے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ ِ ’’بداء‘‘ کے اطلاق پر بھی اتفاق ہے، سماعت کے اعتبار سے، قیاس نہیں۔ اور اس بات پر اتفاق ہے کہ ائمہ ضلالت وگمراہی نے قرآن کے لکھنے میں بہت اختلاف کیا ہے، اور بہت ساری چیزوں میں وحی کے موجب سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ گئے تھے۔‘‘ اور معتزلہ، خوارج ؛ زیدیہ، مرجیہ،اور اصحاب حدیث کا ان تمام امور میں جو ہم نے گنے ہیں، امامیہ کے خلاف اجماع ہے۔‘‘[2] ابو منصور احمد بن منصور الطبرسی (۶۲۰ھ ): طبری نے (کتاب) ’’الاحتجاج‘‘ میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے؛ وہ فرماتے ہیں : ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رحلت فرما گئے، تو علی علیہ السلام نے قرآن جمع کیا اور اسے لے کر مہاجرین اورانصار کے پاس آئے، اوران کے سامنے وہ وصیتیں رکھیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں۔ جب ابو بکر نے قرآن کھولا، تو پہلے ہی صفحہ میں ان لوگوں کی رسوائیاں سامنے آئیں۔ عمر کود پڑا ؛ اور کہا : اے علی اسے واپس کردو ؛ ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تو علی علیہ السلام نے وہ قرآن اٹھایا اور واپس چلے گئے۔پھر زیدبن ثابت کو بلایا گیا (وہ قرآن کے بڑے ماہر قاری تھے) عمر نے ان سے کہا : ’’ بے شک علی ایک قرآن لے کر آئے تھے اس میں مہاجرین اور انصار کی رسوائی ہے۔ اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ایسا قرآن تالیف کریں، جس سے مہاجرین اور انصار کے خلاف یہ ہتک آمیزی اور رسوائی ختم کی گئی ہو۔ زید نے ایسا کرنے کی حامی بھر لی۔ جب عمر خلیفہ بنا تواس نے علی سے وہ قرآن طلب کیا تاکہ وہ اس میں تحریف کرے۔‘‘[3]
[1] اصول الکافی : ۲/ ۶۳۹۔ [2] روضۃ الکافی ۸/ ۱۲۵۔ [3] تفسیر العیاشی ۱/ ۹۔ [4] تفسیر العیاشی ۱/ ۱۳۔