کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 340
اتنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ کلینی نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ ان کے پاس ایک اور قرآن ہے، جو مسلمانوں کے پاس موجود قرآن سے تین گنا زیادہ ہے۔ اور اس میں ایک حرف بھی وہ نہیں ہے جو اس قرآن میں ہے۔
کافی کی کتاب ’’الحجۃ‘‘ میں آیا ہے ابو بصیر سے روایت ہے، وہ ابو عبد اللہ سے روایت کرتا ہے، بے شک اس نے کہا: ’’بے شک ہمارے پاس مصحف فاطمہ علیہا السلام ہے۔ اور انہیں کیا معلوم کہ مصحف فاطمہ علیہا السلام کیا ہے؟میں نے کہا: مصحف فاطمہ علیہا السلام کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’’وہ ایسا مصحف ہے جس میں تمہارے اس قرآن جیسے تین ہیں۔ اللہ کی قسم ! اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں۔‘‘ [1]
اور الروضہ میں ہے علی بن سوید سے روایت ہے، اس نے کہاہے :’’ میں نے ابو الحسن موسیٰ علیہ السلام کی طرف خط لکھا؛ اس وقت وہ قید میں تھے۔میں نے ان سے ان کا حال دریافت کیا، اور بہت سارے مسائل پوچھے۔کئی مہینے انہوں نے مجھے جواب نہیں دیا۔ پھر اس نسخہ میں ان کا جواب مجھے موصول ہوا، اس میں یہ لکھا تھا:
’’ اوران لوگوں کا دین مت تلاش کیجیے جو آپ کے شیعہ میں سے نہیں ہیں، اوران کے دین سے محبت نہیں کرنا اس لیے کہ وہ وہی خائن ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی اوراپنی امانتوں میں خیانت کی۔ او رتم جانتے ہوکہ انہوں نے اپنی امانتوں میں کیا خیانت کی ؟انہیں کتاب اللہ کا امین بنایا گیا تھا، مگر انہوں نے تحریف کی اوراسے بدل ڈالا۔‘‘[2]
رافضیوں کے مشہور علماء ومفسرین میں سے محمد بن مسعود بن عیاش المعروف ’’عیاشی ‘‘ہے ؛اس کی ایک تفسیر بھی ہے جو کہ ’’تفسیر عیاشی‘‘ کے نام سے مشہور ہے؛ رافضیوں کے ہاں اس تفسیر کا شمار پرانی اور اہم ترین تفاسیر میں کیا جاتا ہے۔ عیاشی نے اس تفسیر کے مقدمہ میں روایت کیا ہے، ابو جعفر سے روایت ہے انہوں نے کہا :
’’ قرآن مجید چار حصوں میں نازل ہوا تھا، ایک حصہ ہمارے بارے میں ایک ہمارے دشمنوں کے بارے میں، اورایک حصے میں احکام و فرائض اور ایک حصے میں سنن اور امثال تھے، اور ہمارے لیے قرآن کا سب سے معززحصہ تھا۔‘‘[3]
اور ابو عبداللہ کی روایت میں ہے: ’’ اگر قرآن کو ایسے پڑھا جائے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو آپ ہمیں پائیں گے کہ ہمارے نام اس میں لیے گئے ہیں۔‘‘
اور ابو جعفر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : ’’ اگر اللہ کی کتاب میں زیادہ اور کم نہ کیا گیا ہوتا، تو ہمارا حق کسی بھی اہل عقل پر مخفی نہ رہتا اور اگر ہمارے قائم کا قیام (خروج) ہوجائے ؛ اور وہ کلام کرے تو قرآن اس کی تصدیق کرے۔‘‘[4]
[1] اصول الکافی : ۲/ ۶۳۱۔
[2] اصول الکافی : ۲/۶۳۳
[3] اصول الکافی : ۲/ ۶۳۴۔
[4] مقدمہ تفسیر ابن کثیر ۱/ ۷۔