کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 34
’’ جدا کیے گئے، توڑے گئے۔‘‘ اس وجہ سے وہ ایک حد تک مسلمانوں کے فرقہ معتزلہ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان پر اس نام کا اطلاق ان کے دشمنوں نے کیا ہے۔ اس وجہ سے وہ اس نام کو نا پسند کرتے ہیں اور خود کو (الاحبار) علماء اور (اخوۃ فی اللہ ) ؛فی سبیل اللہ بھائی اور (ربانیین ) اہل اللہ کہتے ہیں۔‘‘ [1]
فریسین فرقہ یہودیوں کے فرقوں میں سے اہم ترین فرقہ ہے۔ یہ اپنی ماضی کی تاریخ اور دور حاضر میں تعداد کے لحاظ سے کثرت میں ہیں۔عقیدہ کے لحاظ سے اس فرقہ کی دو امتیازی خصوصیاتہیں :
۱۔ یہ تمام اسفار قدیم کا اعتراف کرتے ہیں اور وہ زبانی احادیث جو موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں اور تلمود کے اسفار کا اعتراف کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے فقہاء ( جن پر ربانیین کا اطلاق کیا جاتا ہے ) ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تلمود کے اسفار تالیف کیے ہیں۔
ربانی تورات اور تلمود کی تعلیمات پر بہت سختی سے پابند اور ان کا احترام کرنے والے ہیں۔ تلمود کے متعلق یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ یہ بھی وحی ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی،مگر لکھی نہیں گئی تھی۔ اور یہ ان تمام لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں جو تلمود کی تعلیمات پر حرفاً اور معناً عمل نہیں کرتے۔
۲۔ یہ لوگ رجعت پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ صالحین مردے اس زمین میں دوبارہ اٹھائے جائیں گے تاکہ وہ مسیح منتظر کے ملک میں شریک ہوں۔جس کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ وہ آئے گا تاکہ لوگوں کو بچائے اور انہیں یہودی دین میں داخل کرے۔ [2]
فریسیوں کی سرگرمیاں فکری نوعیت کی تھیں ؛ان میں غارت گری اور چڑھائی کی سوچ نہیں تھی۔انہوں نے کبھی بھی سختی اور عنف کی راہ نہیں اپنائی۔ انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں تورات کی تفسیر اور تعلیق میں لگادیں۔
فریسیون بنی اسرائیل سے چاہتے تھے کہ وہ اس پرانے بنی اسرائیلی عقیدہ پر مضبوطی سے قائم رہیں ؛ جو سقوط فلسطین سے پہلے ان کے باپ دادا کا عقیدہ تھا۔
یہ ان انبیاء سے بر سر ِ پیکار رہتے تھے جو ان کی اسیری کے زمانہ میں یا اس کے بعد مبعوث ہوئے۔ یہ ان سے پہلے انبیاء کی شریعت پر کاربند رہتے تھے اور اسے نافذ کرنے میں تشدد سے کام لیتیتھے اور وہ عادات و تقالید کے پابند تھے۔[3]
۴۔ عنانی یاقراؤون:
ایک آدمی کی طرف منسوب ہیں، جسے :عنان بن داؤد کہا جاتا ہے۔ جو آٹھویں میلادی صدی میں یہود ِ بغداد کے ایک بڑے عالم تھے۔[4]
[1] د/ أحمد شلبی : الیہودیۃ : ص ۲۱۸۔
[2] د/ علی عبد الواحد : الأسفار المقدسۃ ص۶۳۔ وعمر عنایت : العقائد : ص ۸۱۔
[3] د/ أحمد شلبی : الیہودیۃ : ص ۲۱۹
[4] ’’أضواء علی الیہودیہ من خلال مصادرہا۔‘‘… ’’یہودیت پر ایک نظر ان کے مصادر کی روشنی میں۔‘‘ڈاکٹر محمد احمد دیاب عبد الحافظ ص ۱۶۷۔