کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 338
﴿ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْْکُمْ حُجَّۃٌ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ ﴾ (البقرہ :۱۵۰)
’’کہ لوگوں کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہ سکے مگر اُن میں سے جو ظالم ہیں۔‘‘ (وہ الزام دیں تو دیں )
اس کے بارے میں کہتا ہے،یہ آیت یوں تھی: ’’ولا للذین ظلموا منہم‘‘…’’اور ان لوگوں کے لیے بھی حجت نہ رہے ان میں سے جو ظالم ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان :
﴿لَا یَزَالُ بُنْیَانُہُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً فِیْ قُلُوبِہِمْ اِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُہُمْ ﴾ (التوبہ:۱۱۰)
’’ یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ اُن کے دلوں میں (موجب) خلجان رہے گی (اور اُن کو متردد رکھے گی) مگر یہ کہ اُن کے دل پاش پاش ہو جائیں۔‘‘
اس کے بارے میں کہتا ہے: ’’یعنی حتی تقطع قلوبہم۔‘‘…(یہاں تک کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں۔) …رہی وہ آیات جواللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے خلاف ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (آل عمران:۱۱۰)
’’(مومنو!) جتنی امتیں (یعنی قومیں ) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم اُن سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو۔‘‘
ابو عبد اللہ علیہ السلام نے آیت کے قاری کے لیے کہا ہے ؛ [کیا] (خیر أمۃ) وہ امیر المومنین علیہ السلام اور حسن اور حسین علیہما السلا م کو قتل کریں گے ؟ان کے پوچھا گیا : اے ابن رسول اللہ ! پھر یہ آیت کیسے نازل ہوگئی؟ تو فرمایا : یہ آیت اس طرح تھی:
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾
’’تم سب سے بہتر ائمہ ہو ؛ جنہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔‘‘
اور جس آیت میں اس کی جگہ پر تحریف کی گئی ہے،وہ اللہ کا یہ فرمان ہے :
﴿لّٰـکِنِ اللّٰہُ یَشْہَدُ بِمَا اَنزَلَ إِلَیْْکَ فی علی أَنْزَلَہُ بِعِلْمِہِ وَالْمَلآئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَ﴾[1]
’’لیکن اللہ نے جو (کتاب) تم پر نازل کی ہے حضرت علی کے بارے میں اس کی نسبت اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے علم سے نازل کی ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہ تو اللہ ہی کافی ہے۔‘‘[2]