کتاب: تحفہ شیعیت - صفحہ 337
﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ إِن لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہَذَا الْحَدِیْثِ أَسَفاً﴾ (الکہف: ۶)
’’اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے آپ کو ہلاک کر دیں گے۔‘‘
اس کے بارے میں وہ کہتا ہے یہ ایسے نازل ہوئی تھی:
﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ أَسَفاً إِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہَذَا الْحَدِیْثِ﴾
یہ مثالیں اس نے قرآن میں تقدیم و تأخیر پر ذکر کی ہیں۔ اور اس دوسری مثال کے بعد کہا ہے : ’’اور اس کی مانند اور بہت زیادہ ہیں۔‘‘
پھر کہتا ہے کہ رہا منقطع معطوف : یہ چند آیات میں ہے جو ایک خبر کے بارے میں نازل ہوئیں،پھر ان کے پوراہونے سے پہلے منقطع ہوگئیں اور ان کی جگہ دوسری آیات آگئیں۔ پھر بعد میں اسے خبر اول پر عطف کیا۔ اس کی مثال جیسے لقمان کے قصہ میں ہے:
﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِہِ وَہُوَ یَعِظُہُ یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (لقمان: ۱۳)
’’اور (اس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: بیٹا! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے۔‘‘
پھر لقمان کی اپنے بیٹے کو وصیت منقطع ہوگئی اور فرمایا:
﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْناً …الٰی قولہ … فَأُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (لقمان:۱۴۔۱۵)
’’ اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے…آگے تک… تو جو کام تم کرتے رہے ہو میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا۔‘‘
پھر لقمان کی خبر کو دوبارہ لایا گیا؛اور فرمایا:
﴿یَا بُنَیَّ اِنَّہَا إِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللّٰہُ﴾ (لقمان: ۱۶)
’’پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ(بھی)خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ تعالی ضرور لے آئے گا۔‘‘
پھر کہا ہے کہ اس جیسی اوربہت سی آیات ہیں۔
جب کہ ایک حرف کی جگہ دوسرے حرف کو بدلنے کی مثال دیتے ہوئے کہتاہے :
[1] کتاب سلیم بن قیس ص: ۱۲۲۔
[2] بصائر الدرجات ص ۲۱۳۔
[3] بصائر الدرجات ص ۲۱۳۔
[4] تفسیر قمی ۱/۸۔